Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
(اس کے برعکس) جو لوگ اڑ گئے اپنے کفر (و باطل) پر (اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے) بیشک ان کے حق میں برابر ہے کہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، انہوں نے (بہر حال) ایمان نہیں لانا2
14 فلاح کا مفہوم اور اس کی عظمت شان کا بیان : یعنی ایسے لوگ اس اصل اور حقیقی کامیابی سے سرفراز ہوں گے جو ان کو دوزخ سے پناہ اور جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی کی شکل میں نصیب ہوگی، اور وہی ہوگی اصلی اور حقیقی کامیابی، کیونکہ وہاں پر مومن صادق کو وہ کچھ ملے گا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا، نہ کسی کان نے سنا ہوگا، اور نہ ہی کسی بشر کے دل پر اس کا گزر ہی ہوا ہوگا، جیسا کہ حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) سے صاف اور صریح طور پر مروی ہے، اور وہاں پر مومن صادق کو وہ کچھ ملے گا جو اس دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہوسکتا، جس کے لئے دو بنیادی پہلوؤں کے اعتبار سے موازنہ کافی ہے۔ ایک یہ کہ وہاں پر اہل جنت کی ہر خواہش پوری ہوگی کیونکہ انہوں نے دنیا میں " خدا چاہی " زندگی گزاری تھی، تو اس کے صلے میں حضرت حق جلَّ جَلَالُہ اپنے کرم بےپایاں اور رحمت بےنہایت سے ان کو وہاں پر " من چاہی " زندگی عطاء فرمائے گا، جو وہ چاہیں گے وہ ان کو ملے گا، اور جو خواہش وہ کریں گے وہ پوری ہوگی، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔۔ { ولَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہاَ مَا تَدَّعُوْنَ } ۔ (حمٓ السجدۃ۔ 3 1) اور ظاہر ہے کہ یہ شان دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کیلئے بھی ممکن نہیں، کیونکہ اس دنیا میں نہ ایسا کوئی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے جس کی ہر خواہش پوری ہو، اور دوسری امتیازی شان اہل جنت کی یہ ہوگی کہ ان کو وہاں پر " خلود و دوام " اور ہمیشہ کی زندگی نصیب ہوگی۔ نہ وہ نعمتیں کبھی ختم ہوں گی، اور نہ ہی جنتی کو ان سے کبھی محروم کیا جائے گا، اور وہاں پر " خُلُوْدٌ لَا مَوْتَ فِیْہ وَلا زَوَال " کا عالم ہوگا، جبکہ دنیا میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی کوئی سوال نہیں، سبحان اللہ، کیا کہنے رب کریم و وھّاب کی اس بخشش و عطا کے۔ اللہ نصیب فرمائے (آمین) ۔ سو اخروی فوز و فلاح اور نعیم جنت کے یہ وہ دو اہم اور بنیادی پہلو ہیں جو دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہوسکتے، کیونکہ دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی ہر خواہش پوری ہو، اور دنیا کی کوئی نعمت بھی ایسی نہیں ہوسکتی جو کہ دائمی ہو۔ سو اس سے اخروی کامیابی اور وہاں کی دائمی شاہانہ زندگی کی عظمتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پس اس منظر کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اس دنیائے فانی کی کوئی کامیابی بھی درحقیقت پوری کامیابی نہیں، کیونکہ اول تو اس کی ہر کامیابی میں طرح طرح کے نقائص، عیوب، اور خطرات موجود ہوں گے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ نعمت جتنی بھی بڑی اور عظیم الشان کیوں نہ ہو، آخر فانی اور زائل ہونے والی ہی ہے۔ پس جو لوگ اس دنیائے دوں کی کسی بھی کامیابی کو اصل اور حقیقی کامیابی سمجھتے ہیں، وہ بڑے خطاکار اور برخود غلط ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَظِیْم ۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اخروی کامیابی پانے والوں کیلئے اس دنیا میں محرومی اور ناکامی ہی ہے، نہیں اور ہرگز نہیں، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ حضرت حق جل جلالہ جو اپنے نیک بخت اور سعادت مند بندوں کو آخرت کی اس حقیقی کامیابی سے بہرہ ور فرمائے گا، وہ اس سے پہلے اس دنیا میں بھی ان کو حیات طیبہ (پاکیزہ زندگی) اور سچی عزت و ناموری، اور دوسری طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا، اور سرفراز فرماتا ہے، مگر یہ ان کے عمل کا اصل اور پورا بدلہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک طرح کا زائد انعام و اکرام ہوتا ہے، جس سے وہ محض اپنی عنایت و مہربانی سے اپنے نیک بندوں کو ان کے ایمان و عمل صالح کی بناء پر یہاں نوازتا ہے۔ اصل اور پورا بدلہ تو وہ ان کو آخرت ہی میں عطاء فرمائے گا۔ پس اصل اور حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے، جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں جابجا اور طرح طرح سے فرمایا گیا ہے، مثلًا " سورة آل عمران " کی آیت 185 میں ارشاد ہوتا ہے { کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْت، وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ، فَمَنْ زُحْزِحَ عَن النَّار وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ، وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا الاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ } ۔ (آل عمران۔ 185) " ہر جان نے موت کا مزہ بہرحال چکھنا ہے، اور تمہیں تمہارے پورے اجر (اے لوگو ! ) قیامت کے دن ہی مل سکیں گے، سو جو (خوش نصیب اس روز) دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ یقینی طور پر (حقیقی) کامیابی سے سرفراز ہوگیا، اور دنیا کی یہ زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں "۔ اَللّٰہُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ حقیقی فوز و فلاح ایمان و یقین کے بغیر ممکن نہیں۔ 15 " کَفَرُوْا " کا اصل مفہوم اور کافروں کی وجہ محرومی : سو ہمارے اس ترجمہ سے وہ تمام اشکالات خود بخود ختم ہوگئے جو لفظ " کَفَرُوَا " کے ظاہری ترجمہ پر عموماً وارد ہوتے ہیں، اور حضرات مفسرین کرام کو ان کے جوابات کے لئے لمبی چوڑی وضاحت کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، کیونکہ ہمارے اس ترجمہ سے اصل مفہوم واضح ہوگیا کہ یہاں پر یہ بیان ان ضدی اور ہٹ دھرم کافروں سے متعلق ہے جو اپنے کفر پر اڑ گئے، اور وہ ایمان لانا چاہتے ہی نہیں، سو ایسے بدبختوں کو اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ زبردستی نور حق و ہدایت اور نعمت ایمان سے نہیں نوازتا، جیسا کہ " سورة ھود " کی آیت نمبر 28 میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کٰرِہُوْنَ } ۔ " کیا ہم اس (نعمت ہدایت) کو زبردستی تم سے چپکا دینگے جبکہ تم لوگ اس سے نفرت ہی کرتے ہو ؟ " استفہام یہاں پر انکاری ہے، یعنی ایسے نہیں ہوسکتا، کہ یہ زبردستی کا سودا تو سرے سے ہے ہی نہیں، یہ تو اللہ پاک کی وہ نعمت کبریٰ ہے جس سے وہ اپنی رحمت بےنہایت اور کرم بےغایت کی بناء پر اپنے بندوں کو محض ان ہی کے بھلے کے لئے نوازنا چاہتا ہے، مگر اس کے لئے اولین شرط اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ طلب صادق کا جوہر انسان کے اندر موجود ہو، تو پھر وہ ضدی اور ہٹ دھرم منکر و کافر لوگ جو اپنی ضد وعناد اور ہٹ دھرمی سے طلب صادق کے اس جوہر گراں بہا کو ہی ضائع کرچکے ہوں، وہ نور ہدایت کی نعمت سے کیونکہ سرفراز ہوسکتے ہیں ؟ پس ان لوگوں کی یہ محرومی اور بدنصیبی ان کی اپنی ہی اختیار کردہ ہے، اور اس کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ایسے ضدی اور ہٹ دھرم لوگ نور ایمان سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو طلب صادق اللہ تعالیٰ کی عنایات سے سرفرازی کا ذریعہ ہے، اور عناد و ہٹ دھرمی محرومی کا باعث۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم مِنْ کُلّ زَیْغٍ وَّ ضَلَالٍ وَّسُوْئٍ وَّ اِنْحِرَاف ۔ اور ہٹ دھرم لوگ چونکہ ماننا چاہتے ہی نہیں۔ اس لیے ان کے لیے ہمیشہ کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا ۔ 16 عناد و ہٹ دھرمی کا نتیجہ و انجام محرومی ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ : کیونکہ یہ لوگ ضد اور ہٹ دھرمی پر آئے ہوئے ہیں، اور ضد، ہٹ دھرمی، اور " میں نہ مانوں " (I never agree) کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہی ہوتا ہے، کہ ایسے لوگ حق و ہدایت کی دولت سے محروم ہوجاتے ہیں، والعیاذ باللہ۔ سو اب یہ لوگ حق کے وضوح کے لئے ہر نشانی آجانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کریں گے، جیسا کہ سورة یونس میں ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کے پاس اگر ہر نشانی بھی آجائے تو بھی انہوں نے ایمان نہیں لانا، یہاں تک کہ یہ دیکھ لیں اس دردناک عذاب کو (جو ان کیلئے مقدر ہوچکا ہے) ( سورة یونس : 96 ۔ 97) سو عناد اور ہٹ دھرمی باعث محرومی ہے اور طلب صادق ذریعہ سرفرازی، زمین کا وہی خطہ سرسبز و شاداب ہوتا اور گل و گلزار بنتا ہے جو باران رحمت کو اپنے اندر جذب کرتا ہے، اور جس کی صلاحیت اور سختی کی بناء پر پانی اس کے اندر اتر ہی نہ سکے، وہ محروم کا محروم اور ویران کا ویران ہی رہتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم، سو بندے کو چاہئے کہ حق بات دل سے سنے اور مانے، وباللہ التوفیق۔
Top