Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور (وہ بھی یاد کرلیا کرو کہ) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا، اور تم پر اٹھا دیا تھا کوہ طور کو، (اور تم سے کہا تھا) کہ مضبوطی سے تھام لو تم اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے، (یعنی توراۃ) اور یاد کرو تم ان (احکام و ہدایات) کو جو کے اس کے اندر (موجود و مندرج) ہیں تاکہ تم بچ سکو،
190 اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم اور اسکا مطلب ؟ : کہ سچے دل سے اس پر ایمان لا کر، اس کے احکام پر پوری طرح عمل کرو کہ یہی صحت و سلامتی کی راہ ہے اور اسی میں تمہارے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے، اور اسی کے نتیجے میں تم لوگوں کو نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کی سعادت بھی نصیب ہوگی، کیونکہ تمہاری اس کتاب میں ان سے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں۔ بہرکیف کتاب الہی کو مضبوطی سے تھامنے اور پکڑنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس پر سچے دل سے ایمان لایا جائے، اور اس کی ہدایات عالیہ اور تعلیمات مقدسہ کے مطابق عمل کیا جائے، جتنا کسی کا اس پر ایمان و یقین پکا اور پختہ ہوگا اتنا ہی وہ اپنے دعوی ایمان میں سچا ہوگا اور اسی قدر کتاب الہی اپنی فیض رسانی سے اس کو نوازے گی، اور سرفراز کرے گی اور لذّت ایمان و یقین سے سرفراز و سرشار ہوتا جائے گا ۔ وباللہ التوفیق ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حق تعالیٰ نے تورات نازل فرمائی تو حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ اس کو قبول کریں اور مضبوطی سے تھام کر صدق دل سے ان پر عمل کریں۔ جو بنی اسرائیل نے اس کے بعض احکام کے شاق ہونے کی وجہ سے تورات کے احکام کو اپنانے سے صاف انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کو حکم دیا کہ وہ پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سر پر معلق کردیں تو جبریل نے تعمیل ارشاد میں پہاڑوں کو ان کے سروں پر معلق کردیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ ان احکام کو صدق دل سے قبول کرو اور اپناؤ۔ ورنہ یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا تو انہوں نے فورا اقرار کرلیا۔ اور وہ سجدے میں گر گیے۔ سو اس آیت کریمہ میں اسی واقعے کی تذکیر و یاددہانی فرمائی گئی ہے۔ ( معالم التنزیل بحوالہ معارف للکاندھلوی ) ۔ سو احکام خداوندی کو صدق دل سے اپنانا اور ان پر عمل کرنا اصل مقصود ہے۔ 191 کتاب الہٰی کو مضبوطی سے پکڑنا تقویٰ و پرہیزگاری کا ذریعہ : یعنی تاکہ اس طرح تم لوگ بچ سکو، اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی سے، اور اس کے نتیجے میں تم بچ سکو اس کی گرفت و پکڑ اور اس کے عذاب سے، اور یہی ہے بڑی کامیابی۔ سو اپنی کتاب کو مضبوطی سے پکڑنا حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے اور تقوی و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی ہے کا ذریعہ ہے۔ تقوی و اتقاء کا اصل مفہوم ہوتا ہے بچنا اور پرہیز کرنا، ہر اس چیز سے جو رب کی ناراضگی کا باعث ہوتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور رب تعالیٰ کی رضا و عدم رضا کا پتہ وحی خداوندی اور کتاب الہی کے بغیر چلنا ممکن نہیں، کتاب الہی ہی وہ واحد اور پاکیزہ ذریعہ و وسیلہ ہے جس سے انسان اپنے رب کی رضا اور عدم رضا کو جان سکتا ہے اور اسی کے مطابق چل کر انسان تقوی و طہارت اور اپنے رب کی رضاء و خوشنودی سے سرفراز ہوسکتا ہے اور خداوند قدوس کی رضا و خوشنودی سے سرفرازی ہی اصل مقصود ہے ۔ واللہ التوفیق ۔ ورنہ محض زبانی کلامی دعو وں سے کچھ نہیں بنتا ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top