Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور تم اپنی قوم کے ان لوگوں (کے حال و مال) کو بھی اچھی طرح جانتے ہو، جنہوں نے (قانون) سبت کے بارے میں تجاوز کیا تو ہم نے ان سے کہا (اپنے حکم قہری اور تکوینی طور پر) کہ ہوجاؤ تم بندر ذلیل (و خوار)4
195 یہود کا قانون سبت سے تجاوز : جو کہ حضرت داؤد ۔ (علیہ السلام) ۔ کے زمانے میں گزرے ہیں اور جو سمندر کے کنارے پر رہا کرتے تھے۔ ان کی گزربسر کا زیادہ تر مدارو انحصار مچھلی کے شکار پر تھا۔ اور ہفتے کا دن جسے انہوں نے ازخود اپنی عبادت کیلئے مقرر کیا تھا۔ ان کی آزمائش کیلئے اس دن ان کے لئے مچھلی کے شکار کی ممانعت کردی گئی تھی، مگر انہوں نے طرح طرح کے حیلے بہانوں سے کام لیکر ہمارے ان احکام کی خلاف ورزی کی، اور وہ آزمائش میں ناکام ہوئے، تو اس کے نتیجے میں وہ ایک ہولناک اور رسواکن عذاب سے دوچار ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ واضح رہے کہ اللہ پاک کی طرف سے عبادت اور اس کے اہتمام کیلئے ہفتے کے سات دنوں میں سے جمعے کا دن ہی سب قوموں کیلئے مقرر فرمایا گیا تھا، اور مسلمانوں کے یہاں آج تک جمعہ کا دن ہی اس غرض کیلئے مقرر ہے، جو کہ ان کیلئے ہفتہ واری عید کی حیثیت رکھتا ہے، مگر اس کے برعکس یہود نے اپنے لئے ہفتے کا دن منتخب کیا، اور نصاری نے اتوار کا دن، اس طرح وہ دونوں گروہ مسلمانوں سے پیچھے ہوگئے، جیسا کہ یہ امر حضرت نبیء معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) سے ثابت و وارد ہے اور قانون سبت سے متعلق یہود بےبہبود کا یہ قصہ آگے سورة اعراف میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے جہاں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاسْاَلْہُمْ عَن الْقَرْیَۃ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ } ۔ الخ۔ (الاعراف : 163) ۔ سو قانون سبت کی مخالفت کی بنا پر یہود کو سخت بھگتان بھگتنا پڑا۔ 196 یہود کیلئے بندر اور خنزیر بن جانے کی ہولناک سزا : یعنی ذلیل و خوار اور اللہ پاک کی رحمت و عنایت سے محروم و مطرود ہو کر ۔ والعیاذ باللہ ۔ معلوم ہوا کہ جھوٹے حیلوں بہانوں سے اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات کو بدلنا، اور ان سے گلوخلاصی کی کوشش کرنا، اور اس کی مقرر فرمودہ حدود کو پامال کرنا نہایت سنگین اور ہولناک جرم ہے، جس کا انجام بہت سخت اور خوفناک ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ مگر وہ حیلے جن کا مقصد احکام شرعیہ کا ابطال نہیں، بلکہ ان پر عمل کرنا ہو، وہ اس زمرے میں نہیں آتے۔ سو ان کو اپنانا جائز ہے کہ ان کا ثبوت خود قرآن و حدیث سے ملتا ہے، مثلاً سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ الصلوۃ والسلام) نے جب ایک حیلہ و ترکیب کے ذریعے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیا، تو قرآن پاک نے اس قصے کو نقل کرنے کے بعد اس کی کسی طرح کی کوئی تردید یا تغلیط نہیں فرمائی، بلکہ اس کی درستگی اور تصویب کو اس طرح صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ۔ { کَذَالِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ } ۔ " اسی طرح تدبیر بتائی ہم نے یوسف کو " اسی طرح حضرت ایوب (علیہ الصلوۃ والسلام) کے قصے میں وارد ہے کہ جب انہوں نے غصے کی حالت میں اپنی بےقصور بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھالی تو اس میں " حنث " یعنی قسم توڑنے کے گناہ سے بچنے، اور بےقصور بیوی کو بلاوجہ سو کوڑوں کی سزا سے بچانے کیلئے، حضرت حق ۔ جل وعلا ۔ کی طرف سے آپ کو یہ ترکیب بتلائی گئی، اور یہ حیلہ سکھایا گیا کہ آپ سو کوڑوں کی بجائے سو تنکوں کا ایک مٹھا لیکر اس کے ذریعے ان کو ایک ہی دفعہ مار دو ، تاکہ قسم بھی پوری ہوجائے، حانث بھی نہ ہونا پڑے، اور ایک بےگناہ کو بلاوجہ مارنے کا ارتکاب بھی لازم نہ آئے۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ { خُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہٖ وَ لا تَحْنَثْ } ۔ اسی طرح حدیث پاک میں ایک صاع عمدہ کھجور کو دو صاع ردی کھجور کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایا گیا کہ تفاضل کی اس صورت میں اکل ربو [ سود خوری ] کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اور اس سے بچنے کیلئے یہ طریقہ اور حیلہ ارشاد فرمایا گیا کہ تبادل جنس سے بچ کر اس کو نقد کی صورت میں خرید لو، تو اس کے ذریعے مطلوبہ تبادلہ کرلو، تو اس طرح اختلاف جنس کے سبب سود لازم نہیں آئیگا، (معارف للدیوبندی المرحوم) ۔ پس ہر ایسا حیلہ ممنوع و محظور ہے، جس سے کسی حکم شرعی کا ابطال لازم آتا ہو، اور جہاں حیلہ سے مقصود کسی حکم شرعی کا ابطال نہیں، بلکہ اس پر عمل کرنا اور اس میں تسہیل مقصود ہو تو وہ درست ہے۔ پس اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اہل بدعت کے ایک بڑے صاحب نے جو یہ کہا کہ " شرعی حیلے کرنے بنی اسرائیل پر حرام تھے ہماری امت پر حلال ہیں " تو اس نے ایک ایسی بالکل غلط اور بےبنیاد بات کہی جو عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی۔ کیونکہ جس شرعی حیلے سے مقصود کسی حکم شرعی کا ابطال ہو ۔ والعیاذ باللہ ۔ وہ نہ کل جائز تھا نہ آج جائز ہے۔ اسی لئے بنی اسرائیل کو اس سنگین جرم پر اتنی بڑی اور سنگین سزا بھگتنا پڑی ۔ والعیاذ باللہ ۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ بنی اسرائیل کے مسنح کا یہ قصہ جمہور کے نزدیک اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ یعنی واقعۃً ان لوگوں کی شکلیں بندروں کی شکلیں بنادی گئی تھیں۔ مگر چونکہ قانون قدرت کے مطابق ایسے لوگوں کی نہ نسل چلتی ہے، اور نہ ان کو زیادہ لمبی زندگی ملتی ہے، بلکہ اس طرح نمونہ عبرت بننے کے جلد ہی بعد ان کو مٹا دیا جاتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں سے بھی یہی ہوا کہ روایات کے مطابق اس مسنح صوری کے تین روز بعد یہ لوگ ہمیشہ کیلئے مٹا دیئے گئے، البتہ مجاہد ( (رح) ) وغیرہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ مسنح صوری نہیں معنوی تھا۔ مفتی محمد عبدہ مرحوم اور حضرت مصطفیٰ مراغی مرحوم، وغیرہ کچھ مفسرین کرام نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ اگرچہ قرآن حکیم یا کسی حدیث صحیح میں ان دونوں احتمالوں میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی کوئی تصریح موجود نہیں، اور الفاظ قرآنی میں دونوں کا احتمال موجود ہے۔ اس لئے قطعیت اور یقین کے ساتھ ان دونوں میں سے کسی ایک رائے کو حتمی قرار دینا تو مشکل ہے۔ البتہ عمومی قرائن اور تبادر لفظی کے اعتبار سے ہمارے نزدیک راحج قول جمہور ہی کا ہے۔ ایک تو خود اختیار جمہور کی وجہ سے۔ اور دوسرے اس لحاظ سے کہ مسنح معنوی تو یہود بےبہبود کی ایک عمومی صفت اور طبعی اور جبلی خصلت کے اعتبار سے یونہی مشہور و معروف ہے، وہ کوئی نئی اور اچنبھے کی بات نہیں، کہ اس کو ایسے کسی خاص واقعہ کا مصداق قرار دینے کی ضرورت پڑے،۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہ جَلَّ وَعَلَا ۔ واضح رہے کہ اصحاب سبت کا یہ قصہ آگے سورة اعراف میں آیت نمبر 162 سے آیت نمبر 166 تک میں خود بیان فرمایا گیا ہے۔ وَالتَّفْصِیْلُ فِی الْمُفَصَّل انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو سورة اعراف میں اس پر مزید کچھ عرض کیا جائے گا ۔ وباللہ التوفیق وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top