Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 90
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ۚ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
بِئْسَمَا : برا ہے جو اشْتَرَوْا : بیچ ڈالا بِهٖ : اسکے بدلے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ اَنْ يَكْفُرُوْا : کہ وہ منکرہوا بِمَا : اس سے جو اَنْزَلَ اللہُ : نازل کیا اللہ بَغْيًا : ضد اَنْ يُنَزِّلَ : کہ نازل کرتا ہے اللہُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنافضل عَلٰى : پر مَنْ يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے فَبَآءُوْا : سو وہ کمالائے بِغَضَبٍ : غضب عَلٰى : پر غَضَبٍ : غضب وَ : اور لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے عَذَابٌ : عذاب مُهِیْنٌ : رسوا کرنے والا
بڑی ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انہوں نے سودا کیا اپنی جانوں کا، کہ یہ کفر کریں اس کا، جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے، محض اس حسد (وعناد) کی وجہ ہے کہ اللہ اپنی مہربانی سے (اپنی رحمت) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے، سو مستحق ہوگئے یہ لوگ غضب بالائے غضب کے، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے،4
254 لفظ " اشتراء " کا معنیٰ و مفہوم ؟: ۔ لفظ " اشتراء " اگرچہ بیع و شراء کے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مگر یہاں پر یہ لفظ بالا تفاق صرف بیع کے معنی میں ہے، اور خریدو فروخت میں اصل چیز چونکہ وہ سامان ہی ہوتا ہے جس کو انسان ثمن اور قیمت کے بدلے میں خریدتا ہے، اور ثمن و قیمت محض اس کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے، اس لئے جس چیز کو انسان اپنے ارادہ و شوق سے اپناتا ہے، اس کو " مشتریٰ " " خریدی جانے والی چیز " قرار دیا جاتا ہے۔ بلاغت کے اسی اسلوب کے مطابق یہاں پر فرمایا گیا کہ ان بےانصاف، ناشکرے اور بدنصیب لوگوں نے کفر و انکار کو اپنا کر اپنی جانوں کو بیچ دیا اور ان کو عذاب دوزخ کے حوالے کردیا، اور حق کو جاننے پہچاننے کے باوجود اس کو اپنانے کی بجائے ان لوگوں نے محض اس ضد اور عناد کی بناء پر اس کو رد کردیا کہ اللہ پاک کا یہ انعام دوسروں کو کیوں مل گیا، اور شرف نبوت بنو اسحاق سے منتقل ہو کر بنو اسماعیل میں کیوں چلا گیا، اور نبی آخرالزماں انکے اندر کیوں مبعوث ہوگئے۔ سو اتباع ھوی اور عناد و ہٹ دھرمی باعث محرومی ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ اور اس کے برعکس اتباع ھدیٰ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق۔ بہرکیف یہود بےبہبود نے محض حسد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر حق سے منہ موڑا اور ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 255 کافروں کیلئے رسوا کُن عذاب : جو کہ تقاضا اور لازمی نتیجہ ہے ان کے استکبار اور اپنی بڑائی کے جھوٹے گھمنڈ کا، کیونکہ جزاء کے بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ عمل کی جنس سے، اور اس کے مطابق ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے " اَلْجَزَائُ مِنْ جِنْس الْعَمَلِ " چونکہ انہوں نے اپنی بڑائی کے جھوٹے گھمنڈ کی بناء پر حق کا انکار کیا تھا، اس لئے اس کی سزا ان کو یہ دی جائیگی، کہ یہ ایسے " مُہِیْنٌ " اور رسوا کن عذاب سے دوچار ہوں گے۔ عام طور پر ہمارے اردو کے مترجم حضرات اس کا ترجمہ کرتے ہیں " ذلت کا عذاب " حالانکہ یہ ترجمہ ہے " عَذَابُ الْہُوْنِ " کا، جبکہ یہاں پر " عذاب الھون " نہیں بلکہ " عَذَابٌ مُّہِیْن " ٌ فرمایا گیا ہے جس کا فٹ ترجمہ ہے۔ " رسوا کن عذاب "۔ مگر پتہ نہیں یہ حضرات اس فٹ ترجمہ کو چھوڑ کر " ذلت کے عذاب " کا ترجمہ، کیوں اختیار کرتے ہیں۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ کافروں کو رسوا کن عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا، کہ انہوں نے استکبار یعنی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر حق سے اعراض و انکار کیا تھا۔ سو حق سے اعراض و انکار اور راہ حق سے روگردانی خساروں کا خسارہ اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔
Top