Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور یقینا ہم نے لکھ دیا زبور میں ذکر کے بعد کہ بلاشبہ اس زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے3
142 ذکر اور زبور سے مقصود و مراد : یہاں پر ذکر سے مراد لوح محفوظ اور الزبور سے مراد وہ تمام آسمانی کتابیں ہیں جو مختلف انبیائے کرام پر نازل فرمائی گئیں۔ (ابن کثیر، مراغی، محاسن اور صفوہ وغیرہ ) ۔ تو مطلب اس صورت میں یہ ہوا کہ ہم نے یہ مضمون اول لوح محفوظ میں لکھا اور پھر تمام آسمانی کتابوں میں بھی اس کو لکھ دیا۔ سو اس سے اس کی عظمت و اہمیت اور قطعیت واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبور سے مراد زبور داؤد ہے اور ذکر سے مراد تورات۔ لیکن پہلا قول و احتمال زیادہ اہم اور اوفق بالمراد ہے ۔ والعلم عند اللہ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں یہ چیز لکھ دی اور طے کردی اور اس کو اپنی تمام کتب سماویہ میں ذکر فرما دیا کہ جنت کی اس پاکیزہ اور مقدس زمین کی وراثت انہی لوگوں کو ملے گی جو اپنے عقیدئہ و عمل کے لحاظ سے اس کے اہل اور قابل ہوں گے نہ کہ کسی کی خاندانی وجاہت یا نسلی برتری کی بنا پر۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا کہنا تھا کہ جنت میں ان کے سوا کوئی نہیں داخل ہوگا ۔ { وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ ہُوْدًا اَوْ نَصَاریٰ } ( البقرۃ : 111) ۔ سو ایسے نہیں ہوگا بلکہ وہاں پر دار و مدار اپنے ایمان و عقیدہ پر ہوگا۔ ایسے کہنے اور سمجھنے والے محض خیالی پلاؤ پکا رہے ہیں ۔ { تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ } ۔ یعنی یہ سب کچھ محض ان کی خود ساختہ اور من گھڑت آرزوؤں پر مبنی ہے ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و ضلال ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا اور خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب کرے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 143 نیک لوگوں کے لیے ارض جنت کی وراثت کی خوش خبری : سو الارض سے یہاں پر مراد جنت کی زمین ہے۔ یعنی ایسے خوش نصیب وارث ہوں گے جنت کی سرزمین کے جو کہ سب سے اعلیٰ و افضل اور عمدہ و اکمل زمین ہے نہ کہ دنیا کی یہ فانی و ناقص زمین جس کی ارض جنت کے مقابلے میں کوئی حقیقت اور حیثیت ہی نہیں۔ اس لیے اس دنیاوی زمین کے وارث ومالک تو نیک بھی رہے ہیں اور بد بھی۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ بخلاف ارض جنت کے کہ اس کی وراثت صرف اہل ایمان وتقویٰ ہی کو نصیب ہوگی۔ یہی قول ابن عباس اور مجاہد کا ہے اور اسی کو قرطبی وغیرہ جیسے اکابر مفسرین نے ترجیح دی ہے۔ اور اسی پر سورة زمر میں مذکور و موجود یہ ارشاد ربانی بھی دلالت کرتا ہے ۔ { وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ } ۔ ( الزمر :74) اور اسی پر سیاق وسباق بھی دلالت کرتا ہے۔ رہ گئی دنیا میں زمین کی تقسیم و میراث تو وہ اس بنیاد پر سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ اس کی تقسیم و میراث ابتلاء و آزمائش کی بنا پر ہے۔ اس لیے وہ مومن و کافر اور صالح و فاجر سب ہی کو ملتی ہے کہ اس میں ان سب کی آزمائش ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیِنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ } ۔ (الاعراف :129) ۔ سو جن لوگوں نے سورة انبیاء کی اس آیت کریمہ میں زمین سے مراد یہ دنیاوی زمین لی ہے اور اس بنا پر انہوں نے صالحون کو بھی دوسرے معنی پہنائے ہیں انہوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور انہوں نے اس لفظ کا وہ مفہوم بیان کیا جس کے مطابق مادہ پرست کافر و منکر بھی صالح قرار پاتے ہیں جو کہ صریح نصوص قرآن وسنت کے معارض اور انکے خلاف ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسوء و انحراف ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔ 144 صالحون سے مراد اللہ تعالیٰ کے نیک بندے : یعنی یہاں پر صالحون کے معنیٰ وہ نہیں ہیں جو ان ٹیڑھے لوگوں نے بیان کیے ہیں جن کا ذکر اوپر کے حاشیے میں ہوا ہے۔ بلکہ یہاں پر صالحون سے مراد اس کے معروف و متبادر معنیٰ ہی ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو ایمان و عقیدہ اور عمل صالح کی دولت سے سرشار و مالامال ہوں گے خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں کہ معیار و مدار صحت عقیدئہ و عمل پر ہے نہ کہ حسب و نسب اور رنگ و نسل وغیرہ کے ان خود ساختہ و مصنوعی فوارق پر جو لوگوں نے مختلف ناموں سے از خود گھڑ رکھے ہیں۔ کہ وہ نہ تو شرف و فضیلت کے لیے حقیقی معیار اور مدار بن سکتے ہیں اور نہ ہی وہ انسان کے اپنے بس اور اختیار میں ہوسکتے ہیں۔ بلکہ اصل معیار تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ } ۔ ( الحجرات :13) سو جنت کی اس مقدس اور پاکیزہ سرزمین کی وراثت اللہ کے ایسے ہی صالح اور نیک بندوں کو نصیب ہوگی جن کا ایمان و عقیدہ بھی صحیح ہوگا اور ان کا عمل و کردار بھی درست ہوگا۔ اور انہوں نے زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے اور اسی کی ہدایت وتعلیمات کے مطابق گزاری ہوگی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر ثابت قدم رکھے اور ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top