Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 109
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ روگردانی کریں فَقُلْ : تو کہ دو اٰذَنْتُكُمْ : میں نے تمہیں خبردار کردیا عَلٰي سَوَآءٍ : برابر پر وَاِنْ : اور نہیں اَدْرِيْٓ : جانتا میں اَقَرِيْبٌ : کیا قریب ؟ اَمْ بَعِيْدٌ : یا دور مَّا تُوْعَدُوْنَ : جو تم سے وعدہ کیا گیا
پھر بھی اگر یہ لوگ اے پیغمبر ! راہ حق و صداقت سے منہ موڑے ہی رہے تو ان سے کہہ دو کہ میں نے تو تم کو علی الاعلان اور ایک برابر خبردار کردیا ہے اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ چیز دور ہے یا قریب جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جارہا ہے1
147 مشرکوں اور منکروں کو آخری اور فیصلہ کن تنبیہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ اس کے بعد بھی پھرے ہی رہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں نے تو یقینا تم سب کو خبردار کردیا اور سب کو برابر طور پر اور پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ تمہارا راستہ الگ اور ہمارا الگ۔ اور اب ہماری تمہاری دونوں کی جنگ ہے۔ یہ نہیں کہ کچھ کو بتایا ہو اور کچھ سے چھپایا ہو۔ بلکہ سب کو ایک برابر بتا کر آئندہ کے بارے میں خبردار کردیا ہے۔ نیز ایسا واضح طور پر اور کھول کر بتادیا ہے کہ اس میں تم اور میں ایک برابر ہوگئے۔ ( روح، ابن کثیر، قرطبی وغیرہ ) ۔ سو اب ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ہم تم سے بری اور تم ہم سے بری۔ ہماری تم سے جنگ اور تمہاری ہم سے جنگ۔ سو یہ کفار و مشرکین کو آخری جواب ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئٌ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ } ۔ (یونس :41) ۔ سو اس میں متکبروں اور منکروں کے لیے فیصلہ کن تنبیہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ 148 آئندہ سے متعلق معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے : کہ وہی جانتا ہے کہ آئندہ اور کب اور کیا ہونے والا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دور "۔ یعنی حق و اہل حق کا غلبہ اور کفر اور اس کے علمبرداروں کی ناکامی و رسوائی اور قیامت کا وہ وقت جس میں سب باتوں کا فیصلہ آخری اور کامل شکل میں چکا دیا جائے گا۔ سو ان تمام امور سے متعلق جو وعدے تم لوگوں سے کیے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قریب ہیں یا دور۔ کیونکہ ان سب امور کا تعلق مستقبل اور غیب سے ہے۔ اور یہ سب غیبی امور ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ عالم غیب وہی اور صرف وہی وحدہ لا شریک ہے۔ ( روح، قرطبی، ابن کثیر، جامع اور محاسن وغیرہ ) ۔ سو ان سب کاموں نے بہرحال ہونا ہے اور اپنے وقت پر بہرحال ہو کر رہنا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا۔ اس کا علم اللہ وحدہ لا شریک ہی کو ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور اسی طرح وہ عذاب جس سے تم لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں بھی اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کب اور کس شکل میں تم لوگوں پر آئے گا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ قریب ہے یا دور۔ یہ سب کچھ اللہ وحدہ لا شریک ہی کے علم میں اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سو { ما تو عدون } کا عموم ان سب ہی صورتوں کو شامل ہے۔ سو آئندہ کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top