Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 23
لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْئَلُوْنَ
لَا يُسْئَلُ : اس سے باز پرس نہیں کرتے عَمَّا : اس سے جو يَفْعَلُ : وہ کرتا ہے وَهُمْ : اور (بلکہ) وہ يُسْئَلُوْنَ : باز پرس کیے جائیں گے
وہ ایسی بےمثال عظمت والا ہے کہ وہ جو بھی کچھ کرے اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا اور باقی سب کی باز پرس کی جاسکتی ہے
29 اس سے کوئی کچھ پوچھ نہیں سکتا : کہ وہ خالق ومالک بھی ہے اور حاکم و حکیم بھی۔ اور اپنی پوری کائنات میں بلاشرکت غیرے متصرف و فرماں روا بھی۔ وہ جو کچھ کرے وہ حق و صدق ہے۔ لہذا نہ اس سے پوچھنے کا کسی کو کوئی حق ہے اور نہ ہی کسی کی جان ہے کہ وہ اس سے پوچھ سکے۔ وہ اس طرح کے تمام تصورات سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ وہ خالق کل اور مالک مطلق ہے اور باقی سب اس کی مخلوق اور اس کے مملوک ہیں۔ اور کسی مخلوق اور مملوک کو یہ حق نہیں پہنچ سکتا کہ وہ اپنے خالق اور مالک حقیقی سے کوئی سوال کرے۔ سو اس ارشاد ربانی سے اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کو واضح فرما دیا کہ وہ کسی کے آگے مسؤل اور جواب دہ نہیں اور باقی سب اس کے آگے مسؤل اور جوابدہ ہیں۔ خواہ وہ ملائکہ مقربین ہوں یا انبیاء و رسل یا جنوں اور انسانوں میں سے کوئی ہستی اور گروہ ہو۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس کے حکم سے سرتابی کرسکے۔ اگر کسی نے ایسی جسارت کی تو اس کو اس کا بھگتان بھگتنا پڑے گا۔ سو اس سے مشرکوں کے اس مشرکانہ تصور و فلسفہ کی جڑ نکال دی گئی کہ ان کے خود ساختہ اور من گھڑت معبود اس کائنات کے نظم و نسق میں خداوند قدوس کی خدائی میں شریک و دخیل ہیں۔ وہ جو چاہیں کرا سکتے ہیں اور خدائے پاک کے ارادہ کو تبدیل کرا سکتے ہیں۔ سو ایسا ہر تصوروخیال باطل و بےبنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 30 اور باقی سب کی بازپرس کی جائے گی : کہ وہ سب اس کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں۔ اس کی زمین اور اس کی تخلیق کردہ اس وسیع کائنات میں رہتے، بستے، کھاتے، پیتے اور پلتے بڑھتے ہیں۔ لہذا اس خالق کل اور مالک مطلق کو اسکا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان سے پوچھے۔ اور وہ ان سے پوچھے گا کہ تم نے اس کا حقِّ بندگی کیا اور کس طرح ادا کیا ؟ تاکہ ہر کوئی اپنے کیے کرائے کا صلہ و بدلہ پاس کے۔ چناچہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا اور قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا کہ ان سب لوگوں سے ان کی زندگی بھر کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { فَوَرَبِّکَ لَنَسْاَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ۔ (الحجر : 92-93) ۔ سو اس سے ان مشرکوں کے شرک کی جڑ نکال دی گئی جو کہتے ہیں کہ ان کے خود ساختہ شرک اور من گھڑت معبود اس کی خدائی میں دخیل ہیں اور اپنے اس مشرکانہ تصور کی بنا پر یہ لوگ ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے جس ارادے کو چاہیں بدلوا سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں اس سے منوا سکتے ہیں۔ اور وہ خداوند قدوس کی باز پرس سے بالا ہیں۔ جو چاہیں کریں وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top