Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 82
وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَۙ
وَ : اور مِنَ : سے الشَّيٰطِيْنِ : شیطان (جمع) مَنْ يَّغُوْصُوْنَ : جو غوطہ لگاتے تھے لَهٗ : اس کے لیے وَيَعْمَلُوْنَ : اور کرتے تھے وہ عَمَلًا : کام دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے سوا وَكُنَّا : اور ہم تھے لَهُمْ : ان کے لیے حٰفِظِيْنَ : سنبھالنے والے
اور شیطانوں یعنی جنوں میں سے بھی ہم نے بہت سے ایسوں کو ان کے تابع کردیا تھا جو ان کے لئے غوطے لگاتے اور وہ اس کے علاوہ اور بھی کئی کام کرتے تھے اور ان کے سنبھالنے والے بھی ہم ہی تھے
106 حضرت سلیمان کے لیے تیز ہواؤں اور جنوں کی تسخیر کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا " اور ہم نے سلیمان کے لیے تیز ہواؤں اور جنوں کو بھی ان کے تابع کردیا تھا " تاکہ تند و تیز ہوا ان کے تخت کو اپنے کندھوں پر لے کر چلے اور جنوں کو بھی ان کے تابع کردیا تھا کہ وہ غوطے لگا کر ان کے لیے ہیرے اور موتی وغیرہ نکال کرلے آئیں۔ سو شیطان سے یہاں پر مراد جن ہیں اور شیطان کا اطلاق ہر سرکش پر ہوتا ہے خواہ وہ کوئی جن ہو یا انسان یا حیوان۔ ( مفردات راغب ) ۔ سو اس میں یہ عظیم الشان اور انقلاب آفریں درس ہے کہ جو اللہ کا ہوجاتا ہے اور وہ اس سے صحیح معنوں میں ڈرتا ہے تو ہر چیز اس کی ہوجاتی ہے اور اس سے ڈرتی اور اس کے تابع بن جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے ۔ ہر کہ ترسید از حق وتقویٰ گزید ۔ ترسد از وے جن و انس و ہر کہ دید ۔ پس اللہ والا بن جانا ایسی شاہ کلید ہے کہ ہر خیر کا دروازہ اس سے کھلتا ہے ۔ اللہم ارزقنا التوفیق و زدنا منہ ۔ آمین ثم آمین۔ نیز یہاں سے ایک اور حقیقت یہ واضح ہوگئی کہ حضرت سلیمان کے لیے جنوں کی تسخیر آپ کے اپنے کسی عمل کا نتیجہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ قدرت کی طرف سے ایک خاص عطیہ تھا جو آپ کو عطا ہوا تھا۔ اور قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے جنوں کی اس سرکش مخلوق کو آنجناب کے تابع فرمان کردیا تھا اور ان کو آپ کے لیے کام میں لگا دیا تھا۔ سو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے تھا۔ 107 حضرت سلیمان کے لیے جنوں کی خدمات : سو ارشاد فرمایا گیا کہ شیاطین یعنی جنوں میں سے بھی بہت سے ایسوں کو ہم نے ان کے کام میں لگا دیا تھا جو ان کی لیے غوطے لگاتے اور وہ اس کے علاوہ ان کے لیے اور بھی کئی طرح کے کام کرتے تھے۔ سو جن حضرت سلیمان کے لیے طرح طرح کی خدمات انجام دیتے۔ وہ ان کے لیے غوطہ خوری کرتے، موتی مونگے وغیرہ نکالتے اور وہ ان کے لیے اور بھی طرح طرح کے کام کرتے تھے۔ جیسے بڑی بڑی عمدہ عمارتیں بنانا، مختلف شہر تعمیر کرنا اور دوسرے ایسے بڑے بڑے کام کرنا جو عام لوگوں کی قوت و دسترس سے باہر تھے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَالشّیَاطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَّ غَوَّاصٍ وَآخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ } ۔ (ص :37-38) سو اس طرح حضرت سلیمان ان مفسد اور سرکش و فسادی عناصر سے تعمیر و ترقی اور رفاہ عامہ کے طرح طرح کے کام کراتے تھے۔ اور ان کی خرق قوتوں سے کام لیتے تھے۔ 108 دور حاضر کے سائنس دانوں کے لیے ایک تنبیہ و تذکیر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم ہی انکے نگہبان تھے ورنہ حضرت سلیمان کے بس میں نہیں تھا کہ وہ ان کو از خود اس طرح اپنے قابو میں کرلیتے۔ سو اصل حکم تو ہر چیز پر ہمارا ہی چلتا ہے ورنہ ایسے سرکش جنوں کو قابو کرنا کس کے بس میں ہوسکتا ہے ؟ اور ہمارے حکم کے باعث ان میں سے کسی میں بھی اس کی مجال نہ تھی کہ وہ حضرت سلیمان کے حکم سے سرمو تجاوز یا سرکشی کرسکے۔ سو حضرت سلیمان کے لیے جنوں کی تسخیر محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام تھا نہ کہ ان کے کسی عمل کا نتیجہ۔ جیسا کہ عام لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ سو اگر ہم ان کے نگران نہ ہوتے تو یہ بےقابو ہو کر طرح طرح کے خطرات اور آفتوں کا سبب بن سکتے تھے۔ سو اس ارشاد میں بڑی تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو قدرت کی بعض قوتوں کی تسخیر سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب ہم ان کے مالک ہوگئے۔ کوئی ان کو ہم سے چھیں نہیں سکتا۔ اور نہ ہی یہ قوتیں ان کے خلاف کوئی بغاوت کرسکتی ہیں۔ سو یہ محض انسان کی تنگ ظرفی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ آج انسان بھاپ، گیس، بجلی اور ایٹم وغیرہ کی جن قوتوں کی تسخیر سے طرح طرح کے کام لیتا اور فائدے اٹھاتا ہے تو یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم سے ہو رہا ہے۔ اسی نے ان عظیم الشان قوتوں کو انسان کے قابو میں کردیا۔ اور یہ اسی وقت تک انسان کے قابو میں رہیں گی جب تک کہ اللہ چاہے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی بھی قوت کی باگ ذرا بھی ڈھیلی چھوڑ دے تو یہی عظیم الشان نفع بخش قوتیں انسان کو تباہ کردیں۔ چناچہ اس کے کچھ نمونے آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح سے نمودار ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ ابھی چند ہی سال قبل روس میں چرنوبل کا جوہری حادثہ پیش آیا تھا۔ جس میں تابکاری مواد رسنے سے یکایک ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے اور ہزارہا اپاہج اور ناکارہ ہوگئے اور ایک بہت بڑے ایریے میں بےحساب جانور مر گیے۔ نیاتات تک اجڑ گئیں اور زندگی کے آثار مٹ گئے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ہندوستانی ریاست بھوپال میں ایک کارخانے سے زہریلی گیس خارج ہوجانے سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں اپاہج اور معذور ہو گیے۔ اور ہفتہ عشرہ قبل چین کے ایک علاقے میں گیس کے ایک کنویں میں آگ لگنے سے سینکڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے اور چالیس ہزار لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر دور دراز علاقوں میں منتقل کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ سو اس طرح کے نمونے جگہ جگہ اور طرح طرح سے پیش آتے رہتے ہیں مگر غافل انسان ان سے سبق لینے اور اپنی آنکھوں کو کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ الا ما شاء اللہ ۔ والعیاذ باللہ -
Top