Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 24
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ١ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ
وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلَى : طرف الطَّيِّبِ : پاکیزہ مِنَ : سے۔ کی الْقَوْلِ : بات وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطِ : راہ الْحَمِيْدِ : تعریفوں کا لائق
اور ان کو یہ سب کچھ اس لئے ملے گا کہ دنیا میں انھیں ہدایت و توفیق مل گئی تھی پاکیزہ قول کو قبول کرنے کی اور انھیں ہدایت و توفیق مل گئی تھی خدائے ستودہ صفات کے راستے کو اپنانے کی
52 پاکیزہ قول کی ہدایت ایک عظیم الشان نعمت : ان کو پاکیزہ قول کی ہدایت (و توفیق) مل گئی تھی۔ یعنی کلمہ توحید کی جو کہ اصل اساس و بنیاد ہے تمام خوبیوں اور جملہ محاسن و محامد کی۔ (مدارک، جلالین، معارف اور ابن کثیر وغیرہ) ۔ کہ اسی کلمہ طیبہ کے ذریعے قرآن حکیم کے ان خزائن تک انسان کو رسائی حاصل ہوتی ہے جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح کے کفیل وضامن اور امین و پاسدار ہیں۔ اور اسی قول طیب کے نتیجے اور اس کے صلہ وثمرہ میں اہل ایمان کو جب آخرت میں جنت اور اس کی بےمثال نعمتوں سے نوازا جائے گا تو ان کی زبان پر اپنے رب کی حمد وثناء کے ترانے جاری ہوجائیں گے اور وہ طرح طرح کے الفاظ و کلمات کے ذریعے اپنے رب خالق ومالک اور منعم و وہاب کے شکر سے رطب اللسان ہوجائیں گے۔ کبھی جھوم جھوم کر وہ اس طرح کہیں گے ۔ { الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہ وَاَوْرَثَنَا الاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیَثُ نَشَائُ } ۔ (الزمر : 74) اور کبھی وہ دنیاوی غموں سے رہائی و نجات کو یاد کرکے اور جنت کی ان اعلیٰ وارفع اور دائمی و سرمدی نعمتوں کو دیکھ کر جن سے ان کو سرفراز کردیا گیا ہوگا سراپا شکر وسپاس بن کر کہیں گے ۔ { اَلْحَمْدُ اللّٰہِ الّذِیْ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ، الَّذِیْ اَجَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ لَا یَمَسُّنَا فِیْہَا نَصَبٌ وَلا یَمَسُّنَا فِیْہَا لُغُوْبٌ } (فاطر : 34 ۔ 35) اور کبھی وہ ہدایتِ حق اور توفیق خیر وسعادت کی اس نعمت کو یاد کر کے جو کہ ان کو دنیا میں نصیب ہوئی ہوگی اپنے خالق ومالک کی حمد و ثنا میں اس طرح گویا ہو نگے ۔ { الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہِذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ } ۔ (الاعراف : 43) ۔ دوسری طرف ان کو سلامتی کے اس گھر ۔ دارالسلام ۔ میں سلام اور سلامتی والے میٹھے میٹھے اور رس گھولتے کلمات کے سوا اور کوئی ایسا کلمہ نہیں سننا پڑے گا جو لغو و بیکار یا گناہ کی آلودگی رکھنے والا ہو۔ جیسا کہ سورة واقعہ میں فرمایا گیا ۔ { لا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّ لا تَأثِیْمًا، اِلا قِیْلاً سَلامًا سَلامًا } ۔ (الواقعۃ : 25 -26) ۔ اور پھر سلامتی والے یہ کلمات جن کا وہاں پر دور دورہ ہوگا یہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ان کی آپس کی دعاء وہاں پر یہی ہوگی جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلامٌ } ۔ (یونس : 10) ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلامٌ } ۔ (ابراہیم : 23) ۔ اور حق تعالیٰ کی طرف سے بھی ان کو سلامتی والا یہی کلمہ سننے کو ملے گا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { سَلامٌ قَوْلا مّنْ رَّبِّ رَّحِیْم } ۔ (یسٓن : 58) ۔ سو ان تمام کلمات طیبات سے بہرہ مندی اور ان تمام نعمتوں سے سرفرازی انسان کو اسی کلمہ طیبہ کلمہ توحید کی بناء پر نصیب ہوگی جس کے ذریعے وہ دین حق اسلام کے حظیرئہ قدس میں داخل ہوتا ہے۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کلمہ یعنی کلمہ توحید کس قدر عظیم الشان اور جلیل القدر کلمہ ہے۔ یہ دارین کی سعادت و سرخروئی کی کلید و مفتاح اور باب جنت کی کنجی ہے ۔ کما ورد ذلک فی صحاح الاحادیث ۔ اور اسی کیلئے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو اپنی زندگی کے خاتمے کے موقع پر اس پاکیزہ کلمے کا ذکر و ورد نصیب ہوگیا وہ مراد کو پا گیا اور جنت میں داخل ہوگیا۔ چناچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے " مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلامِہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ " ۔ اللہ تعالیٰ راقم آثم کو اور راقم آثم کے جملہ متعلقین کو یہ سعادت و توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ اسی لئے روایات میں وارد ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی بارگہ اقدس و اعلیٰ میں عرض کیا کہ مالک ! مجھے کوئی ایسا خاص ذکر بتادیں جس کے ذریعے میں آپ کو یاد کیا کروں۔ تو آپ (علیہ السلام) کو اس کے جواب میں یہی کلمہ ارشاد فرمایا گیا۔ تو آپ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ مالک میں تو اپنے لئے کوئی خاص ذکر چاہتا تھا اور یہ کلمہ تو ہر کوئی پڑھتا ہے۔ تو جواب ملا کہ موسیٰ یہ کلمہ ایسا عظیم الشان کلمہ ہے کہ اگر اس کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں اور ان کے اندر کی سب مخلوق کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو یہ ان سب پر حاوی نکلے گا ۔ " لَوَزَنَتْہُنَّ " ۔ فالحمد لِلّٰہِ الَّذی شَرَّفَنَا بہذہ الکلمۃ العظیمۃ الجلیلۃ وبالایمان بہا ۔ الحمد لِلّٰہِ کہ آیت کریمہ کی اس تفسیر اور تفصیل سے جو ہم نے یہاں پر اختیار کی ہے حضرات علماء و مفسرین کرام کے وہ سب مختلف اقوال جمع ہوجاتے ہیں جو انہوں نے اس قول طیب کی تعیین و تفسیر کے بارے میں ذکر فرمائے ہیں ۔ فالحمد للہ رب العالمین ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس پاکیزہ کلمہ کلمہ توحید کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔ 53 صراط حمید سے مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ہدایت مل گئی تھی پاکیزہ قول کی اور ان کو ہدایت مل گئی تھی خدائے ستودہ صفات کے راستے کی۔ یعنی اسلام کی جو کہ منبع ہے ہر خیر کا اور مصدر ہے ہر بھلائی کا۔ اور جو کفیل وضامن ہے دارین کی سعادت و سرخروئی کا۔ اور اسی سے ان کو اس طریق محمود کی توفیق و سرفرازی نصیب ہوتی ہے جس پر چل کر یہ دنیاوی زندگی بھی پاکیزہ اور محمود بنتی ہے اور جس سے مومن صادق کو وہ اقوال مرضیہ اور افعال محمودہ نصیب ہوتے ہیں جو اس کو حیات طیبہ ۔ پاکیزہ زندگی ۔ سے سرفراز و بہرہ مند کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے معاشرے میں ایک محمود اور پسندیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں وہ جنت کی اس پاکیزہ زندگی اور پاکیزہ ماحول میں پہنچتا ہے جہاں اس کا کام ہی اپنے رب کی حمد و ثنا سے سرفراز ہونا ہوگا۔ اور وہاں وہ ایسے بلاتکلف حمد و ثنا کریں گے جیسا کہ سانس لیتے ہیں۔ سو صراط حمید یعنی دین اسلام دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل وضامن ہے۔ اور یہی صراط حمید ہے جو انسان کو اپنی منزل مقصود سے سرفرازی کی راہ روشن کرتا ہے اور یہی شاہراہ اس کو دار المقامۃ تک پہنچائے گی۔ اور اللہ ہمیشہ حق و ہدایت کی اس راہ پر ثابت قدم اور مستقیم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top