Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر قربانی کے بعد لوگوں کو چاہیے کہ وہ دور کریں اپنا میل کچیل، اور طواف کریں رحمتوں اور برکتوں بھرے اس قدیم گھر کا یہ بات جو کہ حج کے بعض احکام سے متعلق ہوچکی
64 پھر وہ دور کریں اپنے میل کچیل کو : جو کہ احرام کی پابندیوں کی وجہ سے ان پر چڑھ گئی تھی۔ سو حلق و قصر کرا کر اپنی زلفیں اور ناخن وغیرہ ترشوا کر اور نہا دھو کر اس تمام میل کچیل سے صاف ہوجائیں۔ اور امید رکھیں کہ انشاء اللہ ان سے گناہوں کی میل بھی اسی طرح صاف ہوگئی ہوگی جس طرح کہ جسمانی میل صاف ہوگئی ہے۔ کہ حج بیت اللہ کی اس عظیم الشان عبادت کی اس خاصیت اور تاثیر کے بارے میں حضرت نبی ٔ معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے تصریح فرمائی ہے کہ حج سے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ " الحَجُّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہ " ۔ اور اسی بناء پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج مبرور کی جزاء جنت کے سوا کچھ نہیں ۔ " الحجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہ جَزَائٌ اِلَا الْجَنَّۃ " ۔ بہرکیف حج کے دنوں میں چونکہ انسان احرام کی پابندیوں کی وجہ سے میلا کچیلا رہتا ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے کہ ان خاص دنوں میں انسان میلا کچیلا ہی رہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا ۔ " الحج الشعث التفل " ۔ کہ " حج نام ہی پراگندہ بال اور میلا کچیلا رہنے کا ہے " لیکن حج کی پابندیوں سے فارغ ہونے کے بعد انسان نہا دھو کر صاف ستھرا ہوجائے۔ اسی لیے یہاں پر اس کا حکم وارشاد فرمایا گیا ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا - 65 بیت عتیق کے طواف کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا " اور وہ طواف کریں اس قدیم گھر کا " جو کہ روئے زمین پر سب سے پہلے اللہ پاک کی عبادت و بندگی کے لئے بنایا گیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّہُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ } ۔ (آل عمران : 96) یہ " عتیق " کا ایک معنیٰ ہے جبکہ اس کے دوسرے معنیٰ " آزاد " کے بھی آتے ہیں۔ اور یہ معنیٰ بھی یہاں مراد لئے جاسکتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے اس مقدس گھر کو ہر قسم کے ظالم اور جابر حکمرانوں کے غلبہ و تسلط اور ظلم وعدوان سے ہمیشہ محفوظ اور پاک و صاف رکھا اور جس کسی نے بھی کبھی اس کی طرف بری نیت سے قدم اٹھایا اس کا ایسا حشر کیا کہ جو ہمیشہ کے لئے دوسروں کے لئے درس عبرت بن گیا۔ جیسا کہ اصحاب الفیل کے نام و عنوان سے ایسے بدبختوں کا قصہ اور ان کا ہولناک اور عبرت انگیز انجام مشہورو معروف ہے۔ اور مسلمان حکمرانوں میں سے جس کو بھی اس کی خدمت کا موقع ملا اس نے اس کو اپنے لئے فخر اور سعادت دارین کا ذریعہ سمجھا۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے موجودہ فرماں روا ملک فہد بن عبد العزیز نے اپنے آپ کو " جلالۃ الملک " کی بجائے " خادم الحرمین الشریفین " کہلانا ہی زیادہ پسند کیا۔ چناچہ آپ کو اسی وصف و لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ نیز اس گھر کو " عتیق " اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا طواف کرنے والے دوزخ کی آگ سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ بہرکیف لفظِ " عتیق " کا اطلاق ان دونوں معنوں پر ہوتا ہے۔ قدیم اور آزاد۔ اور یہ دونوں ہی اس بیت مقدس پر صادق آتے ہیں اور اس پر منطبق ہوتے ہیں۔ حضرات مترجمین کرام میں سے کسی نے ایک معنیٰ کو اختیار کیا ہے اور کسی نے دوسرے کو۔ بہرکیف یہاں پر حجاج کرام کو حکم وارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ اس گھر کا طواف کریں اور یہ طواف زیارت اور طواف افاضہ کہلاتا ہے جو کہ حج کا ایک اہم رکن ہے۔
Top