Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 46
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا : پس کیا وہ چلتے پھرتے نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَتَكُوْنَ : جو ہوجاتے لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل يَّعْقِلُوْنَ : وہ سمجھنے لگتے بِهَآ : ان سے اَوْ : یا اٰذَانٌ : کان (جمع) يَّسْمَعُوْنَ : سننے لگتے بِهَا : ان سے فَاِنَّهَا : کیونکہ درحقیقت لَا تَعْمَى : اندھی نہیں ہوتیں الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) تَعْمَى : اندھے ہوجاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الَّتِيْ : وہ جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں میں
تو کیا غفلت میں ڈوبے یہ لوگ چلتے پھرتے نہیں عبرتوں بھری اس زمین میں ؟ کہ ان کے ایسے عبرت پذیر دل ہوتے جن سے یہ سوچتے سمھتے حق اور حقیقت کو یا ان کے ایسے کان ہوتے جن سے یہ سنتے پیغام حق و صداقت کو بات یہ ہے کہ سر کی یہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں
97 عبرت پذیری کی دعوت و ترغیب : سو عبرت پذیری کی دعوت و ترغیب کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں (عبرتوں بھری) اس زمین میں۔ یہ استفہام تحفیض و تقریع کے لئے ہے، یعنی ان لوگوں کو چل پھر کر ایسے کھنڈرات دیکھنے چاہئیں تاکہ یہ سبق لے سکیں اور عبرت پکڑسکیں، مگر افسوس کہ انسان کی حالت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس نے ایسے مقامات پر عبرت کی آنکھیں بالعموم بند کر رکھی ہوتی ہیں، کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے، چناچہ آج بھی جو لوگ موہنجو ڈارو، ہڑپہ اور ٹیکسلا وغیرہ کے آثار قدیمہ دیکھنے جاتے ہیں، وہ محض تفریح، کھیل تماشا، اور فوٹو گرافی وغیرہ کے لئے جاتے ہیں، عبرت پزیری کی کوئی بات ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوتی، الا ماشاء اللہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ کھنڈارت جن لوگوں کے ہیں وہ کون تھے ؟ اور ان کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ کس نے کیا ؟ اور اس میں ہمارے لئے کیا کچھ درسہائے عبرت و بصیرت ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ سو غفلت و لاپرواہی کا مرض ام الامراض ہے، والعیاذ باللہ العظیم ورنہ یہ لوگ اگر غور و فکری اور عبرت پذیری کی غرض سے ایسے مقامات پر جاتے تو ان کی نگاہیں وا ہوجاتیں، ان کے کان گوش حق نیوسن بن جاتے، اور ان کے دل و دماغ سامان عبرت و بصیرت سے مالا مال ہوجاتے، مگر غفلت و لاپرواہی نے ان کی مت مار دی، والعیاذ باللہ العظیم 98 دلوں کا اندھا پا سب سے بڑا اور ہولناک اندھاپا ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کی بصارت اگرچہ برقرار ہوتی ہے مگر ان کی بصیرت ختم ہوجاتی ہے، اور بصیرت کا اندھا پن ہی دراصل خطرے اور نقصان کا باعث اور ہلاکت کا موجب ہوتا ہے، والعیاذ باللہ سو سر کی اور ظاہری آنکھیں ایسے لوگوں کی صیح وسالم ہوتی ہیں، وہ بڑی باریک باریک چیزیں دیکھتے ہیں اور مادی اور ظاہری امور میں ان کی رسائی بڑی دور تک ہوتی ہے، لیکن ان کے دلوں کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں والعیاذ باللہ جس کے باعث ان کو کچھ سوجھ کے ہی نہیں دیتا، اور اصل اعتبار جو دل کی آنکھوں ہی کا ہوتا ہے، اور دل کی اسی روشنی ہی سے ظاہری آنکھوں کو بھی جلا ملتی ہے، ورنہ محض ظاہری اور سر کی آنکھوں کا دیکھنا تو حیوان کا دیکھنا ہوتا ہے، سو ایسے لوگ جو دل کی روشنی سے محروم ہوجاتے ہیں، محض حیوان بن کر رہ جاتے ہیں بلکہ ان کا حال اس سے بھی کہیں بدتر ہوجاتا ہے، والعیاذ باللہ ۔ سو دنیا کی اصل آفت یہ نہیں کہ سروں میں لگی ہوئی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں بلکہ اصل اور حقیقی آفت یہ ہے کہ سینوں کے اندر جو دل ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں جس سے ایسے لوگ حق اور حقیقت کو سمجھنے اور اپنانے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ سو اگر سروں کی آنکھوں کی بصارت جاتی رہے لیکن سینوں کے اندر کے دل بیدار ہوں تو آدمی نابینا ہو کر بھی تمام حقائق کا ادراک و مشاہدہ کرلیتا ہے لیکن اگر کسی کی دل کی آنکھیں چپاٹ ہوجائیں تو اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ دیکھنا تو سب کچھ ہے لیکن اس کو سوجھتا کچھ بھی نہیں اور یہی ہے اصل محرومی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ فکر و نظر کے ہر زیغ و ضلال اور بصیرت و بصارت کے ہر قسم کے اندھاپے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی امان وپناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین وانہ سبحانہ وتعالی سمیع قریب مجیب وعلی ما یشاء قدیر -
Top