Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 72
اَمْ تَسْئَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ١ۖۗ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : کیا تم ان سے مانگتے ہو خَرْجًا : اجر فَخَرَاجُ : تو اجر رَبِّكَ : تمہارا رب خَيْرٌ : بہتر وَّهُوَ : اور وہ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : بہترین روزی دہندہ ہے
کیا آپ اے پیغمبر ان سے کوئی اجرت مانگ رہے ہیں ؟ تو اس کا بھی کوئی سوال نہیں کیونکہ آپ کے رب کا اجر تو بہرحال سب سے بہتر ہے اور وہی ہے سب سے بہتر دینے والا،
91 اور اللہ ہی ہے سب سے بہتر روزی رساں : کہ سب خزانوں کا مالک و متصرف تنہا وہی وحدہ لاشریک ہے جس کو جو چاہے اور جس قدر چاہے عطا فرماتا ہے۔ سو جس خوش نصیب کی نظر اس وحدہ لاشریک کی عطاء و بخشش پر ہو اس کے سامنے اس دنیائے دوں اور اس کے حطام زائل کی حیثیت ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو پیغمبر تم سے کچھ نہیں مانگتا بلکہ اس کا بھروسہ اللہ وحدہ لاشریک ہی پر ہے۔ تم کو تو وہ سب کچھ مفت دے رہا ہے تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ سو اس میں ایک طرف تو پیغمبر کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے اور دوسری طرف منکرین و معاندین کے لیے زجر و تنبیہ اور ملامت و توبیخ۔ کہ پیغمبر تمہارے سامنے حق و ہدایت کا جو پیغام و پروگرام پیش کر رہے ہیں وہ اس پر تم سے کوئی صلہ اور معاوضہ تو نہیں مانگتے کہ تم اس کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہو۔ انہوں نے تو جس طرح اس دولت کو مفت پایا اسی طرح اس کو آگے مفت بانٹ رہے ہیں۔ ان کا اجر تو اس خداوند قدوس پر ہے جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور سب سے بہتر روزی رساں ہے۔ اور اگر ان لوگوں نے اس نعمت کبریٰ کی قدر نہ کی تو اس میں خود ان ہی کا نقصان ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے کسی نقصان کا کوئی سوال نہیں ۔ (علیہ السلام) -
Top