Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 78
حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ۠   ۧ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب فَتَحْنَا : ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : دروازے ذَا عَذَابٍ : عذاب والا شَدِيْدٍ : سخت اِذَا هُمْ : تو اس وقت وہ فِيْهِ : اس میں مُبْلِسُوْنَ : مایوس ہوئے
یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر کھول دیا کوئی دروازہ کسی سخت عذاب کا تو اس وقت یکایک کٹ کر رہ گئیں ان کی سب آرزوئیں اور امیدیں2
96 تمردو سرکشی کا نتیجہ ہولناک و فیصلہ کن عذاب ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے بدبخت اور متکبر لوگ اپنے تمردو سرکشی اور کفر و انکار ہی پر اڑے رہے۔ یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر کسی سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا۔ اس سے مراد وہ فیصلہ کن عذاب ہے جو دستور خداوندی کے مطابق ایسی سرکش قوموں کا مقدر بن جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ یعنی جب یہ لوگ دنیا کے ان مختلف عذابوں میں سے کسی سے بھی باز نہ آئے اور انہوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ان کے لیے اس آخری اور فیصلہ کن سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا گیا جس سے یہ بدبخت اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہے اور ہر خیر سے قطعی طور پر محروم اور مایوس ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ (ابن کثیر، جامع البیان، المراغی، ابوالسعود وغیرہ) ۔ اور یہی قول راحج معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو اس لئے کہ عذاب شدید کی تشدید اور تہویل کا مقتضا بھی یہی ہے کہ اس سے ان کا وہ آخری عذاب ہی مراد لیا جائے جس کی ہولناکی کا احاطہ و تصور بھی کسی بشر کے بس کا روگ نہیں۔ اور دوسرے اس لئے کہ " ابلاس " جس کا ذکر یہاں فرمایا گیا ہے اس کے معنی ہیں انتہائی تحیر اور ہر خیر وامید سے مایوسی۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا پورا ظہور ایسے آخری اور فیصلہ کن عذاب ہی سے ہوگا کہ وہاں پر جب کفار و منکرین کو اپنی توقعات کے بالکل برعکس اس ہولناک عذاب سے واسطہ پڑے گا جس کی ہولناکی کی کوئی حد و انتہاء نہ ہوگی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور جس سے بچنے اور بھاگ نکلنے کی اب کوئی صورت ان کیلئے ممکن نہ ہوگی تب ان کی تمام امیدیں اور آرزوئیں کٹ جائیں گی۔ ان کے تمام خود ساختہ سہارے ختم ہوجائیں گے اور انکے سب مفروضے مٹ چکے ہوں گے۔ تو اس وقت ان کی محرومی اور مایوسی کی کوئی انتہاء نہ رہے گی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور قرآن حکیم کے بعض دوسرے مقامات سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے کہ " ابلاس " اور مایوسی کا ان کا یہ حال آخرت ہی میں ہوگا۔ چناچہ سورة روم میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْن } ۔ (الروم :12) اس لئے راحج یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عذاب سے مراد آخرت ہی کا عذاب ہے ۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی وَھُوَ اَعْلَمُ بِمُرَادِ کَلَامِہٖ وَاَسْرَارِ نِظَامِہٖ ۔ جبکہ دوسرا قول و احتمال اس سے متعلق یہ ہے کہ اس سے دنیا ہی کا کوئی عذاب مراد لیا جائے۔ جیسے قتل، قید اور قحط وغیرہ۔ چناچہ حضرت مجاہد اور ابن عباس وغیرہ سے یہی مروی ہے کہ اس سے مراد معرکہ بدر کی شکست ہے جس سے کفار ناہجار کو دو چار ہونا پڑا تھا۔ بہت سے مفسرین کرام سے یہی قول مروی ہے اور ابن جریر وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب اہل مکہ شدید قحط کا شکار ہوئے تو ابوسفیان نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ میں رحمت اللعالمین ہوں۔ حالانکہ آپ نے اپنے باپ دادا کو تہ تیغ کردیا اور ان کی اولادوں کو قحط کے ذریعے بھوکوں مار رہے ہیں۔ لہذا اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس قحط کو ہم سے دور فرما دے۔ تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور اس سے وہ قحط ان لوگوں سے ٹل گیا۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (جامع البیان، اسباب النزول، خازن وغیرہ) ۔ لیکن ان حضرات اہل علم کی جلالت قدر اور عظمت شان کے اعتراف اور احساس کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ یہ روایت اس لئے صحیح نہیں ہوسکتی کہ یہ سورة کریمہ بغیر کسی استشناء کے پوری کی پوری مکی سورة ہے۔ اور تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ جبکہ معرکہ بدر مدنی دور میں پیش آیا۔ سو معرکہ بدر کو اس کا مصداق اور سبب نزول قرار دینے سے متعلق یہ روایت اور اس پر مبنی یہ قول تو صحیح نہیں ہوسکتا۔ الا یہ کہ یوں کہا جائے کہ قتل و قید بدر کی صورت میں کفار مشرکین کو ملنے والا وہ عذاب بھی منجملہ اس ارشاد ربانی کے مصداق میں شامل اور داخل ہے۔ لیکن اس کے علاوہ قحط وغیرہ کے مذکورہ بالا کسی دنیاوی عذاب کو اس کا مصداق قرار دینے کی گنجائش بہرحال اس میں موجود ہے اور عذاب شدید کی تنکیر کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہ وَتَعْالٰی وَھُوَ اَعْلَمُ بِمُرَادِ کَلَامِہٖ وَاَسْرَارِ نِظَامِہٖ کَمَا اَسْلَفْنَا اٰنِفًا وَھُوَ الْھَادِیْ اِلٰی سَوَائِ الصِّراط وَاِلَی الرَّشْد وَالصّواب الْمُنْعِمِ الْمِفْضالِ الْعَزِیْزِ الْوَھَّاب جل وعلا شانہ ۔ اور یوں اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ان دونوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق بھی نہیں بلکہ دونوں کا حاصل اور مآل ایک ہی نکلتا ہے۔ کیونکہ جن قوموں پر دنیا میں عذاب آیا ان کے حق میں قیامت کا عذاب بھی وہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے تو بہرحال پھر کبھی دنیا میں واپس نہیں آنا اور " من مات فقد قامت قیامتہ " کے اصول کے مطابق ان کے لیے قیامت کا عذاب بھی وہی ہے کہ ان کا وہی دنیاوی عذاب قیامت کے عذاب کے ساتھ مل کر ہمیشہ کا عذاب بن گیا۔ جیسا کہ قوم نوح کے بارے میں فرمایا گیا کہ " وہ لوگ غرق ہوتے ہی دوزخ کے عذاب میں جا پہنچے " ۔ { مِمَّا خَطِیْئَاتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا } -
Top