Tafseer-e-Madani - An-Noor : 8
وَ یَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَۙ
وَيَدْرَؤُا : اور ٹل جائے گی عَنْهَا : اس عورت سے الْعَذَابَ : سزا اَنْ : اگر تَشْهَدَ : گواہی دے اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ : چار بار گواہی بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ : کہ وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے لوگ
اس کے بعد اس عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یوں کہے، کہ یہ شخص اپنے الزام میں قطعی طور پر جھوٹا ہے
16 لعان والی عورت سے حدِّ زنا ٹالنے کا طریقہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ عورت اپنے آپ سے سزا کو اس طرح ٹال سکتی ہے کہ وہ یوں کہے۔ یعنی حد زنا کی سزا جو کہ خاوند کے الزام اور اس کی ان قسموں کی بناء پر اس کو لگنا تھی۔ اور جب بیوی بھی اس طرح قسمیں اٹھا لے گی تو ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے تفریق اور علیحدگی و جدائی ہوجائے گی اور اس کے بعد یہ دونوں کبھی بھی آپس میں رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہو سکیں گے۔ آگے اس جدائی اور تفریق کے بارے میں بعض حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ باہمی لعان کے نتیجے میں یہ تفریق و جدائی خود بخود واقع ہوجائے گی۔ جبکہ دوسرے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ اس کے بعد خاوند کی طلاق سے واقع ہوگی یا پھر تفریق قاضی سے۔ بہرکیف اس سے ایک طرف تو شوہر حدِّ قذف سے بچ جائے گا اور دوسری طرف دیوثی کے الزام و اتہام سے بھی۔ ادھر ایسی عورت بھی ایک طرف حد زنا سے بچ جائے گی اور دوسری طرف ان طرح طرح کی خانگی پریشانیوں سے بھی جو آئندہ اس شوہر کے گھر رہنے سے اس کو لاحق ہوسکتی تھیں ۔ سبحان اللہ ۔ کیا کہنے قرآنی تعلیمات کی عظمتوں، باریکیوں اور عنایتوں کے ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ھلال بن امیہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق اس کا نزول عویمر عجلانی کے قصہ میں ہوا۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں یہ دونوں ہی قصے صحیح روایات میں وارد ہوئے ہیں اور دونوں ایک ہی زمانے میں پیش آئے ہیں۔ سو یہ دونوں ہی اس کا شان نزول بن سکتے ہیں۔ (معارف وغیرہ) ۔ اور ایسی بہت سی آیات کریمات کے بارے میں وارد و منقول ہے کہ ایک ہی آیت کریمہ کا نزول مختلف حوادث و وقائع سے متعلق قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت کریمہ اور اس کا حکم و مضمون ان سب ہی واقعات پر چسپاں ہوتا ہے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک کو اس کا مصداق قرار دیا جاتا ہے۔ سو یہ اسلاف کرام کا ایک انداز و اسلوب ہے۔
Top