Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اصْرِفْ : پھیر دے عَنَّا : ہم سے عَذَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَهَا : اس کا عذاب كَانَ غَرَامًا : لازم ہوجانے والا ہے
اور جو دعائیں کرتے ہیں اپنے رب کے حضور کہ اے ہمارے رب پھیر دے ہم سے جہنم کا عذاب بیشک اس کا عذاب ایک بڑی ہی ہولناک اور چمٹ جانی والی شے ہے۔
84 اپنے رب سے عذاب دوزخ سے پناہ مانگنے کی صفت محمود کا ذکر وبیان : سو ۔ عباد الرحمن ۔ یعنی خدائے رحمان کے خاص بندوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اپنے رب سے دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے پھیر دے دوزخ کے عذاب کو۔ یعنی اس سب کے باوجود ان میں کوئی غرور یا تکبر پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس کے باوجود دوزخ کے عذاب سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور قیام کرتے اس کی جناب اقدس و اعلیٰ میں سجدہ ریز ہوتے اور عاجزانہ طور پر رو رو کر اور گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعائیں کرتے ہیں کہ وہ محض اپنی رحمت و عنایت اور فضل و کرم سے ان سے دوزخ کے عذاب کو پھیر دے۔ اوپر ان کی جلوت کے بعض کام بتائے گئے ہیں اور اب یہ ان کی خلوت کے بعض کام بتائے جارہے ہیں۔ " غرام " کے معنیٰ ہوتے ہیں لازم ہوجانے والی اور چپک کر رہ جانے والی چیز۔ سو جہنم کا عذاب ایک ایسی چپک کر رہ جانے والی چیز ہوگی جس سے جان چھڑانا ممکن نہیں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو آیت کریمہ کے آخر میں دوزخ کی ہولناکی کے اس بیان سے ان بندگان صدق و صفا کی اس روش کی تصدیق و تایید فرما دی گئی کہ اگر یہ لوگ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس طرح دعائیں کرتے اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں تو بالکل صحیح کرتے اور اپنی عاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہیں کہ جہنم کا وہ عذاب بڑا ہی سخت ہولناک اور ایسی چپک کر رہ جانے والی چیز ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہوگا۔ اور اس سے بچنے کے لیے جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ اسی دنیاوی زندگی میں اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق و عنایت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔
Top