Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
ان سے صاف کہہ دو کہ میرے رب کو تمہاری کیا پرواہ ہے اگر تم لوگ اس کو نہ پکارو اب تم قطعی طور پر جھٹلا چکے ہو سو عنقریب ہی یہ تکذیب تمہارے لیے ایک چمٹ کر رہ جانے والا عذاب بن جائے گی۔1
98 منکرین و مکذبین کے لیے تہدید و دھمکی : سو اس سے سلسلہ کلام کے آخر میں آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ ان سے کہیں کہ میرے رب کو تمہاری کیا پرواہ ہوسکتی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔ یعنی اگر تم اس کو نہ پکارو، اس کی عبادت و بندگی نہ کرو، تو پھر تمہارے درمیان اور ایک بیکار پڑے ہوئے اینٹ پتھر کے درمیان آخر کیا فرق رہ جائے گا ؟ بلکہ ایسی صورت میں تم اس سے بھی کہیں گئے گزرے ہوجاؤ گے کہ تم نے عقل جیسی نعمت رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ایسا گرا دیا اور اس قدر غیر ذمہ دار بنادیا۔ ایسی صورت میں میرے رب کو تمہاری کیا پڑی ہے ؟ اور اس کو تمہاری کیا پرواہ ہے کہ تم کیا ہو اور کس گڑھے میں گرتے ہو۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی اصل قدر و قیمت ایمان و اطاعت ہی سے ہے کہ وہی باطن کی خوراک اور روح کی غذا ہے۔ اور اسی پر دارین کی سعادت و سرخروئی کا مدارو انحصار ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ میرے رب کو تمہاری یا کسی بھی اور ہستی یا مخلوق کی کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی خواہ وہ ہفت اقلیم کی مالک ہی کیوں نہ ہو۔ مقصود تو صرف حق کی دعوت دینا ہے تاکہ اس طرح تمہارا بھلا اور فائدہ ہو۔ سو اگر تم نے اس دعوت کو جھٹلا دیا تو تم اس کے انجام کے لیے تیار رہو کہ وہ لازمی ہے اور اس نے بہرحال واقع ہو کر رہنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top