Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 145
وَ مَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَمَآ اَسْئَلُكُمْ : اور میں نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مِنْ اَجْرٍ : کوئی اجر اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر عَلٰي : پر رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین
اور میں اس کام پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس رب العالمین ہی کے ذمے ہے،
75 حضرت صالح کی مخلصانہ دعوت کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرت صالح کی اپنی قوم کے سامنے اپنی دعوت میں بےغرضی کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ سو حضرت صالح نے ان لوگوں سے کہا کہ میں دعوت و تبلیغ کے اس کام پر تم لوگوں سے کسی طرح کا کوئی اجر اور بدلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ وبدلہ تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔ سو حضرات انبیائے کرام کی دعوت بھی ایک اور انکا اسلوب اور طریق کار بھی ایک۔ یہاں آپ دیکھتے جائیے کہ ان تمام انبیائے کرام کی دعوت بھی ایک ہی ہے اور طریق کار اور انداز تخاطب بھی ایک ہی۔ کہ حق بہرحال ایک ہی ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت کے تینوں بنیادی عقیدے سب ہی پیش فرما رہے ہیں کہ بندگی اللہ کی کرو۔ میرا کہنا مانو۔ یعنی رسالت پر ایمان و یقین لاؤ۔ اور اپنے انجام و آخرت کی باز پرس سے ڈرو۔ اور یہ کہ ہم یہ کام خالص اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ تم سے اس پر کسی بھی قسم کا کوئی بدلہ نہیں مانگتے۔ اس کے مقابلے میں اہل کفر و باطل کا رویہ بھی سب انبیائے کرام کے ساتھ ایک ہی رہا ہے کہ کھڑپینچ اور دنیا دار قسم کے لوگ ہر جگہ حق کو قبول کرنے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے اور اس پر ایک ہی طرح کے اعتراضات و شبہات پیش کرتے ہیں۔ اس طرح اہل حق اور اہل باطل کے یہ دونوں رنگ اور دونوں نمونے بار بار دہرا کر یہ درس دیا جا رہا ہے کہ راہ حق کے قافلے کو کن حالات سے سابقہ پڑتا ہے۔ اور ان کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟ اور اہل حق کی راہ میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top