Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 155
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ
قَالَ : اس نے فرمایا هٰذِهٖ : یہ نَاقَةٌ : اونٹنی لَّهَا : اس کے لیے شِرْبٌ : پانی پینے کی باری وَّلَكُمْ : اور تمہارے لیے شِرْبُ : بایک باری پانی پینے کی يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : معین دن
صالح نے فرمایا یہ ایک اونٹنی ہے جس کے لیے ایک مقرر دن میں پانی پینے کی باری ہے اور ایک دن تمہارے لیے مقرر ہے
79 ناقہ صالح کا ذکر وبیان : سو اس بدبخت قوم نے جب ایمان لانے کی بجائے حضرت صالح سے نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ اونٹنی ایک نشانی ہے تمہارے لیے۔ قرآن پاک میں اس اونٹنی کی پیدائش کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا گیا۔ مگر تفسیری روایات کے مطابق وہ خرق عادت اور معجزے کے طور پر ایک پہاڑی سے پیدا ہوئی تھی جس کا ان لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ تو اس پر حضرت صالح نے حضرت جبریل امین سے اشارہ پاکر دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اسی پہاڑی سے جس کیلئے ان لوگوں نے کہا تھا دس ماہ کی گابھن اونٹنی نکل آئی۔ جس نے ان کے سامنے بچہ دیا۔ (روح المعانی، ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، حاشیہ بیضاوی وغیرہ) ۔ مگر ایسی روایات کے بارے میں جیسا کہ محقق مراغی (رح) وغیرہ نے کہا یقین کرنا اس وقت تک ضروری نہیں جب تک کہ ان کا ثبوت کسی صحیح روایت سے نہ مل جائے۔ اور آیت کریمہ کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عام اونٹنی تھی جو کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت صالح کی اپنی ہی اونٹنی ہو۔ بہرکیف حضرت صالح نے ایک عام اونٹنی کو ان لوگوں کے عذاب کیلئے ایک نشانی کے طور پر مقرر فرما دیا کہ یہ اونٹنی تمہارے لیے عذاب سے بچاؤ کیلئے ایک بند کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے خبردار اس کو چھیڑنا نہیں ورنہ تم کو پہنچ کر رہے گا بہت بڑا عذاب۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ جب کوئی قوم رسول کے مقابلے میں طغیانی و سرکشی کی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اس کی مقرر کردہ نشانیوں پر بھی ہاتھ ڈالنے لگتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہولناک عذاب میں گرفتار ہو کر رہتی ہے۔ سو اس طرح اس بدبخت قوم نے اپنے خود مصیب مانگ لی ۔ والعیاذ باللہ -
Top