Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 157
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ
فَعَقَرُوْهَا : پھر انہوں نے کونچیں کاٹ دیں اسکی فَاَصْبَحُوْا : پس رہ گئے نٰدِمِيْنَ : پشیمان
مگر ان لوگوں نے اس سب کے باوجود کاٹ ڈالیں اس کی کونچیں جس سے ہو ہوگئے ہمیشہ کی ندامت اٹھانے والے
80 ناقہ صالح کی ہلاکت کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے پھر بھی اس اونٹنی کو ہلاک کردیا۔ یعنی رسول کی تنبیہ وتحذیر کے باوجود انہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا۔ یہ کام کیا تو اگرچہ ان میں سے ایک شخص نے تھا مگر باقیوں کی رضا چونکہ اس میں شامل تھی۔ اس لئے اس کی نسبت سب کی طرف کی گئی ہے کہ کسی فعل پر رضا مندی اس کے ارتکاب کے مترادف ہوتی ہے۔ سو اس کے نتیجے میں وہ لوگ سخت نادم ہوئے کہ برائی بہرحال برائی ہے اور اس کا نتیجہ وانجام بہرحال برا ہوتا ہے۔ مگر پھر ان لوگوں کی یہ ندامت و شرمندگی توبہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے کئے کے وبال و انجام کے خیال سے تھی۔ اس لئے اس کا ان کو کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اور یوں بھی عذاب آجانے کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یعنی بالآخر ان کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑا۔ قرآن حکیم کی دوسرے مقامات پر فرمائی گئی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو اس جرم کے ارتکاب کے بعد تین دن کی مہلت ملی۔ جس کا مطلب ظاہر ہے یہی تھا کہ اگر اب بھی ان کو اپنے جرم کا احساس ہوجائے اور یہ سچے دل سے توبہ کرکے حق کی طرف رجوع کرلیں تو ان کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔ اور سچی توبہ و استغفار سے یہ اپنے بچاؤ کا سامان کرسکتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس مہلت سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا کہ جن کے مقدر پھوٹ جاتے ہیں ان کی مت اسی طرح مار دی جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top