Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور بلاشبہ یہ قرآن پہلی کتابوں میں بھی ہے
100 اور بلاشبہ یہ ۔ قرآن ۔ پہلی کتابوں میں بھی ہے : یعنی اس کی خبر اور اس کا ذکر پہلی آسمانی کتابوں میں موجود و مذکور ہے۔ (روح، ابن کثیر، مدارک، کشاف وغیرہ) ۔ نیز اس کے اہم مطالب اور بنیادی مضامین بھی وہی ہیں جو پہلی کتابوں میں پائے جاتے تھے۔ اس لئے کہ آسمانی کتابوں کی بنیادی تعلیمات ایک ہی تھیں۔ کیونکہ توحید کی دعوت، آخرت پر ایمان اور سزا و جزاء وغیرہ کی تعلیم و تلقین سب ہی میں موجود تھی۔ (روح، ابن کثیر، مدارک، مراغی اور معارف وغیرہ) ۔ اسی لئے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ { اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الاُوْلٰی } ۔ (الاعلیٰ : 18) ۔ پس نہ یہ کتاب کوئی نئی اور انوکھی چیز ہے اور نہ اس کو لانے والے پیغمبر۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { قُلْ مَاکُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ } ۔ (الاحقاف : 9) ۔ تو پھر اس پر بدکنے اور اچنبھا کرنے کی کیا وجہ ؟ سو پہلی آسمانی کتابوں میں اس کے بارے میں جو پیشینگوئیاں موجود تھیں ان کی بناء پر اہل کتاب آخری پیغمبر اور اس پر نازل فرمائی جانے والی کتاب کے منتظر تھے۔ اور مشرکین مکہ ان کے پاس اس بارے جاننے اور معلومات حاصل کرنے کیلئے جایا کرتے تھے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے اس بارے معلومات حاصل کرنے کیلئے ایک وفد یثرب کے اہل کتاب کے پاس بھیجا تو انہوں نے اس کی کچھ نشانیاں ذکر کیں اور کہا کہ انکا وقت آگیا ہے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ لیکن جب وہ نور مبین ان کے پاس پہنچ گیا تو یہ ظالم اس کے منکر اور دشمن ہوگئے اور اس کے نتیجے میں یہ اللہ کے غضب اور محرومی کے ساتھ لوٹے ۔ والعیاذ باللہ -
Top