Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 22
وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
وَتِلْكَ : اور یہ نِعْمَةٌ : کوئی نعمت تَمُنُّهَا عَلَيَّ : تو اس کا احسان رکھتا ہے مجھ پر اَنْ عَبَّدْتَّ : کہ تونے غلام بنایا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
اور یہ کوئی احسان ہے جو تو مجھ پر جتلا رہا ہے کہ تو نے ہی تو اپنے ظلم و جبر سے جکڑ رکھا تھا بنی اسرائیل کو اپنی غلامی کے پھندے میں
17 فرعون کے اظہار احسان پر حضرت موسیٰ کا بلیغ جواب : سو حضرت موسیٰ نے فرعون کی اس بات کے جواب میں فرمایا کہ یہ اسی بنا پر تو ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنی غلامی میں جکڑ رکھا تھا۔ یعنی یہ احسان جتلانے کا مقام ہے ؟ یا تیرے لئے شرم کے مارے ڈوب مرنے کا ؟ کیونکہ اس کی نوبت تو تیرے ان لرزہ خیز مظالم کی وجہ سے ہی آئی تھی جو تو بنی اسرائیل پر توڑ رہا تھا۔ اگر معصوم بچوں کے خون ناحق سے تیرے ہاتھ رنگین نہ ہوتے تو میری والدہ مجھے دریا کی موجوں کے حوالے کیوں کرتیں اور میں تیرے محل میں پہنچتا ہی کیوں۔ اور یہ نوبت آتی ہی کیوں ؟ سو اس میں اس کے اس احسان کا انکار ہے۔ (المعارف، المحاسن اور المراغی وغیرہ) ۔ اور بعض نے کہا کہ اس میں اس کے احسان کا اقرار ہے۔ یعنی تو نے مجھ پر احسان کیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو بنی اسرائیل کو غلام بنالے اور میری نبوت کا انکار کر دے۔ (الجامع، الفتح وغیرہ) ۔
Top