Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 8
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا كَانَ : اور نہیں ہیں اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بلاشبہ اس میں بڑی بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر پھر بھی ماننے والے نہیں
7 اکثریت ہمیشہ بےایمانوں ہی کی رہی : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ نشانیوں اور دلائل کی کوئی کمی نہیں۔ زمین کا چپہ چپہ ان سے مملو و معمور ہے۔ مگر جو ماننا چاہتے ہی نہ ہوں ان کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔ سو آیات اور نشانیاں تو ہر طرف پھیلی بکھری ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے ہی نہیں حق اور صداقت کو۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اکثریت بےایمانوں ہی کی ہوتی ہے۔ لہذا عوام کی اکثریت کو حقانیت کی دلیل قرار دینا جس طرح کہ آج مغربی جمہوریت کے پجاریوں اور آج کے اہل بدعت وغیرہ باطل پرستوں کا کہنا اور ماننا ہے وہ سراسر مردود ہے۔ پس حق و باطل کا مدار عوام کالانعام کی کثرت و قلت پر نہیں بلکہ دلائل وبراہین پر ہے۔ عوام کالانعام کی اکثریت تو ہمیشہ غلط کاروں اور بےایمانوں ہی کی رہی۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ تو پھر ایسوں کی کثرت و قلت کا کوئی اعتبار کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و ضلال -
Top