Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 92
وَ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ
وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا لَهُمْ : انہیں اَيْنَ مَا : کہاں ہیں وہ جو كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے تھے
اور کہا جائے گا اس روز ان سے ان کی حسرت کی آگ کو اور بھڑکانے کے لیے کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کی پوجا تم لوگ دنیا میں کیا کرتے تھے ؟
54 مشرکوں کی تذلیل و توبیخ کا ایک منظر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس روز کہا جائیگا ان سے کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کی تم لوگ پوجا کیا کرتے تھے اللہ کے سوا ؟ "۔ کیا وہ تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں یا وہ خود اپنی ہی کوئی مدافعت کرسکتے ہیں۔ اس سے مراد صرف لکڑی پتھر کے بت ہی نہیں جس طرح کہ اہل بدعت نے سمجھ رکھا ہے بلکہ اس میں ہر وہ معبود باطل داخل ہے جس کی دنیا میں پوجا کی گئی ہو۔ خواہ وہ لکڑی پتھر وغیرہ کے مصنوعی اور بےجان بت ہوں یا انسانوں وغیرہ کی شکل میں وہ ہستیاں جن کو حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر پوجا گیا ہو۔ اس امید پر کہ کل یہ ہستیاں ہمارا کام بنادیں گی۔ کیونکہ ایک تو کلمہ { ما } عام ہے۔ جو تمام معبودان مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کو شامل ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کسی بھی نام و شکل کے ہوں۔ اور دوسرے اس لئے کہ من دون اللہ ۔ اللہ کے سوا ۔ کے عموم کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اور تیسرا اس لئے کہ آگے آنے والا { الْمُجْرِمُونَ } کا لفظ بھی اسی پر دال ہے۔ اس لئے اس کا اصل مصداق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ارادئہ و اختیار سے جرم کرا اور کرسکتے ہوں۔ نہ کہ لکڑی پتھر کے وہ بےجان بت جو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ البتہ اللہ کے جن بندوں کی پوجا ان کی مرضی کے خلاف ہوئی ہوگی وہ یقیناً اس انجام سے مستثنیٰ اور بری ہیں۔ کہ ان کا تو اس شرک میں کوئی قصور نہیں جو بعد کے لوگوں نے ان کے نام سے کیا۔ جیسے حضرت عیسیٰ و عزیر۔ (علیہما السلام) ۔ اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رح) اور دوسرے بزرگان دین کہ ان کا اس شرک سے کوئی تعلق نہیں جو ان کی وفات کے بعد ان کے نام پر کیا گیا کہ وہ ایسی شرکیات سے قطعی بری اور بےقصور ہیں کہ وہ تو زندگی بھر اسی معبود برحق کی عبادت و بندگی کرتے رہے اور اسی کی عبادت و بندگی کی دعوت دوسروں کو دیتے رہے جو کہ ایک ہی معبود ہے۔ اور وہ اپنے قول و فعل اور ہر امکانی طریقے سے توحید خداوندی ہی کی دعوت دیتے اور تبلیغ فرماتے رہے۔ اس لئے ان کا معاملہ تو الگ ہے۔ جیسا کہ خود قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ { اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنٰٓی اُوْلٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ } ۔ (الانبیائ : 101) مگر جن لوگوں نے اپنے پیرؤوں، چیلوں، چانٹوں اور معتقدوں سے خود اپنی پوجا پاٹ کرائی ہوگی ان کے سامنے ان کے مریدوں اور چیلوں نے ان کو سجدے کئے ہوں گے۔ ان کے آگے جھک جھک کر رکوع کئے ہوں گے اور انہوں نے اس پر اپنی رضا اور خوشی کا اظہار کیا ہوگا۔ نہ ان کو روکا ٹوکا اور نہ منع کیا ہوگا تو ان کا انجام بہرحال یہی ہوگا جو یہاں پر اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔ اور ان کے چیلے چانٹوں اور پیرؤوں معتقدوں کے سامنے جب مشاہدئہ و ظہور کے اس جہاں میں حقیقت حال پوری طرح کھل کر واضح ہوجائے گی اور ان کو خود معلوم ہوجائے گا کہ ہمیں اپنے بڑوں نے کہاں پہنچا دیا اور یہ خود کس انجام سے دوچار ہوئے ہیں ؟ تو یہی پیرو اور معتقد ان کو مجرم ٹھہرائیں گے اور ان پر لعنت برسائیں گے۔ اور خود اپنی حماقت پر وہ رہ رہ کر افسوس کریں گے مگر اس وقت کے اس پچھتاوے کا نہ کوئی فائدہ ہوگا نہ کوئی اثر و نتیجہ۔ سوائے ان کی یاس و حسرت میں اضافے کے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ قرآن حکیم میں عالم آخرت کا یہ عبرتناک منظر کئی مقامات پر مختلف انداز میں پیش فرمایا گیا ہے تاکہ اندھی تقلید میں مبتلاء لوگوں کی آنکھیں کھل سکیں اور وہ آخرت کے اس ہولناک انجام سے پہلے ہی راہ حق و صواب کو اپنا کر اپنے بخشنے کا سامان کرلیں اور اپنا قبلہ درست کرلیں۔ مثلاً سورة اعراف آیت نمبر 38، سورة احزاب آیت نمبر 67، 68 اور سورة حم السجدہ آیت نمبر 29 وغیرہ میں۔ سو اس موقع پر چیلے اپنے بڑوں اور اپنے گرؤوں کے بارے میں صاف اور صریح طور پر اور چیخ اور چلا کر کہیں گی کہ اے ہمارے رب ہمارے ان بڑوں نے ہمیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے محروم کیا۔ پس تو اے ہمارے مالک ان کو دوہرا عذاب دے ۔ { ربنا ہؤلاء اضلونا فآتہم عذابا ضعفا من النار } ۔ مگر افسوس کہ دنیا کی اکثریت اس کے باوجود قرآن حکیم کی ان نعمتوں بھری تعلیمات سے غافل اور اپنی انہی غلط اور ٹیڑھی راہوں پر چلی جا رہی ہے جو ان کو اس ہولناک انجام سے دو چار کرنے والی ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ والی اللہ المشتکی وہو المستعان فی کل حین وآن -
Top