Tafseer-e-Madani - An-Naml : 31
اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
اَلَّا تَعْلُوْا : یہ کہ تم سرکشی نہ کرو عَلَيَّ : مجھ پر وَاْتُوْنِيْ : اور میرے پاس آؤ مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
اور مضمون اس کا یہ ہے کہ میرے مقابلے میں تم لوگ سرکشی نہیں کرنا اور حاضر ہوجاؤ تم سب میرے پاس فرمانبردار ہو کر،
28 مکتوب سلیمانی کا اختصار اور اس کی جامعیت : سو مختصر ترین خط ہونے کے باوجود اس مکتوب گرامی کی عظمت شان اور جامعیت ملاحظہ ہو کہ اپنا صرف نام لکھا کہ یہ خط سلیٰمن (علیہ السلام) کی طرف سے ہے اور بس۔ نہ اپنی بےمثال بادشاہی و حکمرانی کا کوئی ذکر و تذکرہ اور نہ کسی طرح کی عظمت شان کی طرف کوئی اشارہ یا کوئی اظہار۔ بلکہ کمال عبدیت و بندگی کا بیان و اظہار اور اپنے خالق ومالک کے بابرکت نام اور اس کی توحید و وحدانیت کا ذکر و تذکرہ اور مکتوب الیہم کو یہ پر عظمت دعوت و پیغام کہ ہویٰ و ہوس کی پیروی ترک کر کے حق و ہدایت کی پیروی اختیار کرلو اور بےچون و چرا فرمان بردار بن کر حاضر ہوجاؤ۔ سبحان اللہ ۔ کیا کہنے اس شان عظمت و جامعیت اور اختصار کے۔ قدیم زمانے کے خطوط بالعموم اسی طرح مختصر اور " قلَّ و دلَّ " کی شان کے حامل اور اسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کے نامہ ہائے مبارکہ سے بھی اسی کی شہادت ملتی ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمن کا خط قدرے مفصل اور طویل ہو مگر ملکہ نے اختصار کے ساتھ اس کے اسی حصے کا ذکر کیا ہو جس کا تعلق اس کے معاملہ سے تھا۔ یہاں پر اس خط کا یہ پہلو بھی ملاحظہ ہو کہ ملکہ کو اس طرح کسی ظاہری واسطے کے بغیر ملنے والے خط سے نہ کوئی تعجب ہوا نہ پریشانی۔ نہ اس کو اور نہ اس کے درباریوں کو۔ سو اس سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زمانے میں پرندوں کے ذریعے خطوط بھیجنے اور بھجوانے کا طریقہ عام تھا۔ کم از کم بادشاہوں کے یہاں یہ طریقہ معروف تھا۔ اس لیے ان لوگوں نے اس طرح بغیر کسی ظاہری قاصد کے ملنے والے اس خط پر کسی قسم کے تعجب کا کوئی اظہار نہیں کیا ورنہ اس کا ذکر ضرور کیا جاتا۔ سو یہ عام رواج و معمول کے مطابق تھا۔
Top