Tafseer-e-Madani - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
اپنی شرکیات میں کہو کوئی بھی غیب نہیں جانتا آسمانوں اور زمین میں سوائے ایک اللہ کے اور انھیں تو اس کی بھی خبر نہیں کہ یہ خود کب اٹھائے جائیں گے (1)
74 غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کہو کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے "۔ " لا " اور " الا " کے حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ آسمان و زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔ اس میں فرشتے، انبیاء اور اولیاء وغیرہ سب ہی آگئے۔ سو اللہ وحدہ لاشریک کے سوا عالم غیب اور کوئی بھی نہیں۔ پس جس طرح کلمہ طیبہ " لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ " میں " لَا " اور " اِلَّا " کے حصر کی بنا پر اللہ پاک کے سوا کوئی کسی بھی طرح معبود اور خدا نہیں ہوسکتا اسی طرح یہاں کے اس حصر سے معلوم ہوگیا کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی کسی بھی طرح عالم غیب نہیں ہوسکتا۔ لہذا اگر کوئی کسی نبی یا ولی کو اللہ تعالیٰ کے سوا عالم غیب مانے گا خواہ وہ عطائی وغیرہ کسی تاویل سے ہی کیوں نہ ہو وہ اس ارشاد ربانی کی صریح خلاف ورزی کرے گا۔ اور وہ اللہ پر افتراء اور جھوٹ باندھنے کا مرتکب قرار پائے گا۔ جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت مسروق ام المومنین حضرت عائشہ ۔ ؓ ۔ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؓ نے فرمایا کہ جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ حضرت محمد ﷺ کل کی خبر رکھتے ہیں یقیناً اس نے بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ پھر آپ نے اس کی تائید میں سورة نمل کی یہی آیت کریمہ بطور استشہاد پیش فرمائی ۔ " من زعم أن النَّبی ﷺ یعلم ما فی غد فقد اعظم الفریۃ علی اللّٰہ تعالیٰ یقول تعالیٰ { قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہ } " ۔ (روح المعانی، قرطبی، ابن کثیر، مراغی، فتح القدیر، مدارک التنزیل، خازن، جامع البیان اور جواہر وغیرہ) ۔ اور جس طرح کلمہ طیبہ میں اسی نفی و اثبات والے حصر کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی الہٰ ماننا جائز نہیں اسی طرح یہاں بھی اللہ کے سوا کسی اور کو بھی عالم غیب ماننا جائز نہیں۔ جیسے وہاں کسی بھی قسم کا معبود ماننا شرک ہے اسی طرح یہاں بھی ایسا ماننا شرک ہوگا۔ باقی حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کو غیب کے وہ علوم دئیے گئے جن کی ان کو اپنے منصب نبوت و رسالت کے لئے ضرورت تھی۔ جس طرح کہ ۔ { وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہ مَنْ یَّشَآئُ } ۔ (آل عمران :179) میں۔ اور ۔ { اِلَّا مَنِ اَرْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ } ۔ (جن : 47) میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور اس ضمن میں سب سے زیادہ علم سید الاولین والآخرین امام الانبیا والمرسلین ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ۔ ﷺ ۔ کو عطا فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ اپنی ہر صفت میں دوسرے تمام انبیائے کرام سے ممتاز ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود عالم الغیب ان میں سے کسی کو بھی کہنا جائز نہیں کہ ان تمام علوم کو اللہ پاک کے علم غیر متناہی سے وہ نسبت بھی نہیں جو ایک قطرہ کو سمندر سے ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ قصہ موسیٰ و خضر میں اس کی تصریح موجود ہے۔ اسی لئے حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کے ان اخبار و علوم کو { مِنْ اَنبائِ الغَیْبِ } ۔ " غیب کی کچھ خبریں " فرمایا گیا ہے ۔ الحمد للہ ۔ کہ اس مسئلہ پر علمائے حق نے مستقل اور بڑی عمدہ اور وقیع کتابیں لکھی ہیں۔ خاص کر برصغیر پاک و ہند کے علمائے کرام نے۔ اور اس مسئلہ کو پوری طرح اور ہر اعتبار سے واضح اور مبرہن کردیا گیا۔ اس ضمن میں خاص کر شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صاحب ۔ مدظلہم ۔ نے اپنی عظیم الشان کتاب " ازالۃ الریب عن عقیدۃ علم الغیب " میں اس موضوع سے متعلق ہر پہلو کو پوری طرح نکھار کر اور واضح کر کے بیان فرما دیا ہے ۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ خَیْرًا ۔ جو کوئی اس موضوع سے متعلق ہر پہلو سے آگہی حاصل کرنا چاہے وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے۔ ایک اور بات یہ بھی واضح رہنی چاہیئے کہ یہاں علم سے مراد قطعی اور یقینی علم ہے نہ کہ ظنی اور غیر یقینی۔ جیسا کہ ہمارے یہاں محکمہ موسمیات والے موسم کے بارے میں پیشینگوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ جو کبھی سچی نکل جاتی ہیں اور کبھی نہیں۔ اسی طرح بزرگوں کے کشوف و الہامات وغیرہ بھی۔ سو یہ سب ظنی چیزیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز مدار اور معیار نہیں بن سکتی۔ اس لئے فقہائے کرام نے ان پر کسی مسئلہ کی بنا رکھنے کو جائز نہیں سمجھا۔ روایات کے مطابق یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب کہ کفار قریش نے آنحضرت ﷺ سے قیامت کا وقت دریافت کیا کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ تو اس سے ان کو جواب دیا گیا کہ اس کا تعلق تو غیب سے ہے۔ اور غیب علم کا آسمان و زمین میں صرف اللہ پاک ہی کے پاس ہے۔ اور { مَنْ فِی السَّمٰوَاتَ وَالاَرْضِ } کا عموم فرشتوں، نبیوں اور ولیوں وغیرہ سب ہی کو شامل ہے کہ ان میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ اور یہ بھی عامۃ الناس کے خیال کے مطابق ہے کہ ان کے نزدیک جو بھی کچھ موجودہ ہے وہ آسمان و زمین ہی میں پایا جاتا ہے۔ ورنہ اللہ پاک کی کائنات تو اس سے بہت وسیع ہے۔ اور اس کی وسعتوں کا احاطہ و ادراک بھی اس کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ (جامع البیان، خازن، مدارک وغیرہ) ۔ سو اس کی اس پوری کائنات میں کوئی غیب نہیں جانتا سوائے اس وحدہ لاشریک کے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ جو لوگ اس کے باوجود غیر اللہ کیلئے علم غیب کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ اپنے بارے میں خود سوچ لیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں۔ اور دیکھ لیں کہ نصوص کتاب و سنت کی تصریح اور انکا تقاضا کیا ہے۔ بہرکیف عالم غیب صرف اللہ وحدہ لا شریک ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 75 اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ خود ان کو کب اٹھایا جائے گا : یعنی غیب کا علم رکھنا تو دور کی بات ہے آسمان و زمین کے ان باشندوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ وہ خود کب اٹھائے جائیں گے۔ کیونکہ قیامت کی وہ گھڑی غیب کے ان علوم میں سے ہے جن کا پتہ اللہ پاک۔ وحدہ لاشریک۔ کے سوا اور کسی کو بھی نہیں۔ اور وہ بالکل اچانک آئے گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ لَا تَأْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً } ۔ (الاعراف : 187) (ابن کثیر، مراغی وغیرہ) ۔ سو جب ان کو خود اپنے بارے میں بھی یہ پتہ نہیں کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا تو ان کے عالم غیب ہونے کا کیا سوال ؟ اور جب ان کو خود اپنے اٹھائے جانے کی بھی خبر نہیں تو ان کی شفاعت پر بھروسہ کرنا اور ان کو معبود مان کر ان کی پرستش کرنے کے کیا معنیٰ ؟ اور یہی بات سورة نمل کی بیسویں اور اکیسویں آیت میں ارشاد فرمائی گئی۔ چناچہ وہاں ارشاد فرمایا " اور جن کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں اللہ کے سوا وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے۔ اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ وہ مردہ نہیں زندہ ہیں۔ ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کو کب دوبارہ اٹھایا جائے گا "۔ (النمل : 21-20) ۔ سو اس سے اس حقیقت کو مزید موکد اور واضح فرما دیا گیا کہ آسمان و زمین کی اس پوری کائنات کے اندر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب کو جاننے والا نہیں۔ اور جن ہستیوں کو کچھ لوگ عالم غیب سمجھتے ہیں ان کو خود اپنے بارے میں کوئی پتہ نہیں کہ ان کو کب دربارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ سو عالم غیب اللہ ۔ وحدہ لا شریک۔ ہی ہے۔ اس میں اس کا کوئی بھی شریک نہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top