Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قَالَ : اس نے عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں ظَلَمْتُ : میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان فَاغْفِرْ لِيْ : پس بخشدے مجھے فَغَفَرَ : تو اس نے بخشدیا لَهٗ : اس کو اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
پھر نادم ہو کر آپ نے اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے میرے رب میں نے تو واقعی ظلم کرلیا اپنی جان پر پس مجھے معاف فرما دے تو اس نے اس کو معاف فرما دیا بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے (2)
21 حضرت موسیٰ کی اپنے رب کے حضور معافی کی دعا و درخواست : سو قبطی کے موسیٰ کے ہاتھوں اس طرح خلاف ارادہ و توقع ہلاکت پر حضرت موسیٰ کو سخت ندامت ہوئی تو آپ نے اپنے رب کے حضور فورا عرض کیا کہ اے میرے رب بیشک میں نے ظلم کرلیا اپنی جان پر۔ پس تو میری بخشش فرما دے۔ ظلم سے مراد ظاہر ہے کہ یہاں پر گناہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حضرت موسیٰ نے اس شخص کو قصداً قتل نہیں کیا تھا مگر حضرات انبیائے کرام جو کہ معصوم ہوتے ہیں اور وہ نبوت سے پہلے بھی ہر قسم کے گناہ سے پاک ہوتے ہیں ان کی شان اتنی عظیم اور ان کی طبیعتیں اس قدر پاکیزہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے حق میں معمولی بات کو بھی بڑا سمجھتے ہیں۔ جبکہ کافر و منکر اور باغی انسان اپنے بڑے سے بڑے گناہ کو بھی ایک معمولی چیز سمجھ کر ٹال دیتا ہے۔ بہرکیف حضرت موسیٰ نے اپنے اس نادانستہ فعل کو بھی جرم اور ظلم قرار دے کر فوراً اس کے لئے بخشش اور معافی کی درخواست اپنے رب کے حضور پیش کردی۔ بہرکیف حضرت موسیٰ سے یہ خطا چونکہ بلا کسی قصد و ارادے کے اچانک ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے توبہ بھی فورا اور دل سے کی تھی اس لیے حق تعالیٰ نے آنجناب کی اس خطا کو فورا ہی معاف فرما دیا اور مغفرت و بخشش کی اس بشارت و خوشخبری سے آنجناب کو مطلع بھی فرما دیا گیا۔ اور اس طرح حضرت موسیٰ کو کرم بالائے کرم کی عنایت سے نواز دیا گیا۔ بلاشبہ وہ ربِّ مہربان بڑا ہی غفور اور رحیم ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ ہمیشہ اپنی مغفرت وبخشش سے سرفراز و مالامال رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 22 اللہ تعالیٰ کی مغفرت وبخشش کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔ سو وہ صرف درگزر اور معافی ہی پر اکتفاء نہیں فرماتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رحم بھی فرماتا ہے جس کی بیشمار شکلوں میں سے ایک شکل یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس معافی سے الہام وغیرہ کے ذریعے آگاہ بھی فرما دیا۔ جس سے ان کے دل کو اطمینان ہوگیا۔ بہرکیف حضرت موسیٰ کی اس غلطی کا صدور جیسا کہ ابھی اوپر والے حاشیے میں بھی گزرا چونکہ بلاقصد و ارادہ ہوا تھا اور پھر آپ نے بلاتاخیر اپنے رب سے اس کی معافی بھی فورا مانگ لی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انکو معاف فرما دیا۔ اور اس بخشش و معافی کی غیبی طور پر بشارت بھی ان کو دے دی گئی۔ واقعی اللہ بڑی ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے ۔ فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم ۔ سو مغفرت اور رحمت کی ان دونوں صفتوں کی یکجائی میں یہ درس بھی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گزشتہ لغزشتیں اور خطائیں معاف فرما دے اور آئندہ اس طرح کی تقصیرات اور کوتاہیوں سے محفوظ اور ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ اللہ ہمیں بھی اپنی ان خاص عنایات سے نوازے اور ہمیشہ اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں رکھے ۔ آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین -
Top