Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 21
فَخَرَجَ مِنْهَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ١٘ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
فَخَرَجَ : پس وہ نکلا مِنْهَا : وہاں سے خَآئِفًا : ڈرتے ہوئے يَّتَرَقَّبُ : انتظار کرتے ہوئے قَالَ : اس نے کہا (دعا کی) رَبِّ : اے میرے پروردگار نَجِّنِيْ : مجھے بچا لے مِنَ : سے الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کی قوم
اس پر موسیٰ وہاں یعنی مصر سے نکل پڑے ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے پھر اپنے رب کے حضور ! عرض کیا اے میرے رب بچا دے مجھے ان ظالم لوگوں سے (2)
26 حضرت موسیٰ کی اپنے رب کے حضور نجات کی دعا و درخواست : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس پر حضرت موسیٰ ڈرتے ہوئے وہاں سے نکل پڑے اور اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے بچا لے ظالم لوگوں سے۔ سو یہ ہوتی ہے اللہ والوں کی شان۔ اور یہی ہے توکل کی حقیقت کہ اسباب اپنی طرف سے پورے اختیار کئے جائیں مگر بھروسہ اسباب پر نہیں مسبب الاسباب پر ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان ظالموں کی گرفت سے بچنے کے لئے وہاں سے نکل تو پڑے مگر آپ (علیہ السلام) کا بھروسہ اپنی تدبیر پر نہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد پر ہے۔ اور فوراً عاجزانہ طور پر اس کے حضور دست بدعا ہوجاتے ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرات انبیائے کرام اور موسیٰ جیسے اولوا العزم انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ تک بھی اللہ ہی کے محتاج ہیں۔ اور ان کا حاجت روا و مشکل کشا بھی وہی وحدہ لاشریک ہے ۔ جل جلالہ و عزسلطانہ ۔ اور جب یہ قدسی صفت حضرات بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں بلکہ یہ بھی اللہ ہی کے محتاج ہیں تو پھر اللہ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جسکو حاجت روا و مشکل کشا قرار دیا جاس کے ؟ اور جب یہ جلیل القدر ہستیاں بھی حاجت روائی اور خود اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اور وہ بھی اپنی زندگی میں یہ حضرات بھی اللہ ہی کو پکارتے اور اسی پر اعتماد کرتے اور بھروسہ رکھتے ہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے کہ جو مافوق الاسباب طور پر دوسروں کا حاجت روا و مشکل کشا بن سکے۔ اور وہ بھی اپنی موت کے بعد۔ اور ان کے قبر میں اتر جانے کے بعد۔ سو غلط کہتے اور کرتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو فوت شدہ بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top