Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 27
قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ١ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ١ۚ وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَ١ؕ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
قَالَ : (شعیب نے) کہا اِنِّىْٓ اُرِيْدُ : بیشک میں چاہتا ہوں اَنْ : کہ اُنْكِحَكَ : نکاح کردوں تجھ سے اِحْدَى : ایک ابْنَتَيَّ : اپنی دو بیٹیاں هٰتَيْنِ : یہ دو عَلٰٓي : (اس شرط) پر اَنْ : کہ تَاْجُرَنِيْ : تم میری ملازمت کرو ثَمٰنِيَ حِجَجٍ : آٹھ سال (جمع) فَاِنْ : پھر اگر اَتْمَمْتَ : تم پورے کرو عَشْرًا : دس فَمِنْ عِنْدِكَ : تو تمہاری طرف سے وَ : اور مَآ اُرِيْدُ : نہیں چاہتا میں اَنْ اَشُقَّ : کہ میں مشقت ڈالوں عَلَيْكَ : تم پر سَتَجِدُنِيْٓ : عنقریب تم پاؤگے مجھے اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : انشا اللہ (اگر اللہ نے چاہا) مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیک (خوش معاملہ (لوگ (جمع)
اور ان میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں اس پر اس لڑکی کے باپ نے موسیٰ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کر دوں اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں ملازمت کرو اور اگر تم نے دس سال ورے کر دئیے تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہوگا میں تم پر کوئی سختی نہیں کرنا چاہتا تم انشاء اللہ مجھے خوش معاملہ لوگوں میں سے پاؤ گے
34 حضرت شعیب کی طرف سے حضرت موسیٰ کو ایک اہم پیشکش : یعنی حضرت شعیب کی طرف سے حضرت موسیٰ کو اپنی بیٹی سے نکاح کی پیشکش۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس لڑکی کے باپ نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردینا چاہتا ہوں۔ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت موسیٰ کے پہنچتے ہی یہ سب باتیں ہوگئیں جیسا کہ بادی النظر میں خیال ہوتا ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن پاک چونکہ کتاب ہدایت ہے اس کا مقصد محض تاریخی واقعات کو نقل کرنا نہیں کہ ان کو تفصیل سے اور تاریخی تسلسل کے ساتھ بیان کرے۔ بلکہ اس کا مقصد تو بندوں کو راہ راست دکھانا ہے۔ اس لئے وہ قصوں میں سے انہی حصوں کو منتخب کرتا اور ان کا عطر اور نچوڑ پیش کرتا ہے جو اس مقصد کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اور بیچ کے وہ حصے وہ چھوڑ دیتا ہے جو خود سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس لئے یہاں پر بھی ایسا ہی سمجھنا چاہیئے کہ بیچ کی ان غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ کر مختصر طور پر اہم امور کو بیان فرمایا گیا ہے۔ ورنہ اصل صورت اس طرح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تشریف آوری کے بعد کچھ دن تو ان کے یہاں بطور مہمان قیام کیا ہوگا۔ اس دوران کسی وقت حضرت شعیب (علیہ السلام) کی ایک صاحبزادی نے یہ بات کہی ہوگی کہ ابا جان ان کو آپ اجرت پر رکھ لیں کہ ایسا قوت والا اور امانت دار شخص ہمیں بہت فائدہ دے گا۔ اس کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے خیال کیا ہوگا کہ ایک نوجوان شخص کو یونہی گھر میں رکھنا درست نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ ان کو اپنی ایک لڑکی شادی کر کے دے دوں تاکہ ان کا گھر میں رہنا بھی صحیح طریقے سے ہو اور یہ گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے گھر کے کام کاج بھی زیادہ بہتر طریقے سے کرسکیں۔ تب کسی موقعہ پر انہوں نے حضرت موسیٰ کو یہ پیشکش کی ہوگی۔ اور یہ بات چیت ہوئی ہوگی جو یہاں بیان فرمائی جارہی ہے اور آپ (علیہ السلام) نے ان سے اپنی بیٹی کی شادی سے متعلق یہ پیشکش فرمائی ہوگی۔ اور لگتا ہے کہ آنجناب نے حضرت موسیٰ سے یہ پیشکش غیبی اشارے کی بنا پر فرمائی ہوگی۔ 35 حضرت شعیب کی طرف سے نکاح کے لیے ایک شرط کا ذکر : سو حضرت شعیب نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ میں آپ سے اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح کردینا چاہتا ہوں اس شرط پر کہ تم آٹھ برس تک میری خدمت کرو گے۔ یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ شادی کے فوراً بعد تم اپنی بیوی کو لے کر چل پڑو کہ اس طرح تو ہمارا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ لہٰذا اس رشتے کے لئے شرط یہ ہے کہ تمہیں کم از کم اتنی مدت تک یہاں رہنا ہوگا۔ یہ مطلب نہیں کہ یہ کام اس نکاح کے لئے مہر ہے بلکہ یہ اس کے لئے ایک بنیادی شرط ہے جس کے ماننے کے بعد لڑکی کی تعیین اور مہر کا تقرر وغیرہ امور حسب ضابطہ بعد میں طے کئے جائیں گے۔ کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا یہ قول نکاح نہیں تھا بلکہ نکاح کا محض وعدہ تھا۔ ورنہ اگر یہ نکاح ہوتا تو آپ کہتے " أنْکَحْتُہَا " ۔ " میں نے اس کو تمہارے نکاح میں دے دیا "۔ رہ گئی یہ بات کہ کسی خدمت کو نکاح کا مہر مقرر کرنا درست ہے کہ نہیں ؟ تو اس بارے حضرات اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ یہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا جبکہ ہماری شریعت میں مہر کا مال ہونا ضروری ہے۔ ارشاد ربانی ہے ۔ { أنْ تَبْتَغُوْا بِأمْوَالِکُمْ } ۔ (النسائ : 34) (الاساس، المدارک، المعارف وغیرہ) ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی بیٹی کے نکاح کی پیشکش کرنا کوئی معیوب چیز نہیں جس طرح کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف کرام میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ خود ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کے عقد میں آنے سے پہلے حضرت عمر ؓ نے حضرت صدیق اکبر ؓ اور پھر حضرت عثمان غنی ؓ سے آپ ؓ کے نکاح کی پیشکش کی تھی جس کا ذکر وبیان حدیث و سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب نے نکاح کے سلسلے میں یہ شرط بھی عائد کردی۔ 36 خوش معاملگی کا وعدہ و یقین دہانی : سو اس سے حضرت شعیب کی طرف سے حضرت موسیٰ کو خوش معاملگی کے وعدہ اور اس کی یقین دہانی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اگر تم نے آٹھ کی بجائے دس سال پورے کردیے تو یہ تمہاری طرف سے ایک احسان ہوگا۔ میں تم پر اس معاملے میں کوئی مشقت نہیں ڈالنا چاہتا۔ تم انشاء اللہ مجھے خوش معاملہ لوگوں میں سے پاؤ گے۔ اور صرف یہی نہیں کہ دنیاوی معاملات میں تم مجھے ایسا پاؤ گے بلکہ میرے فیض صحبت سے خود تمہاری ایسی تربیت ہوگی کہ اللہ پاک کے یہاں بھی خاص مرتبہ پاؤ گے۔ چناچہ اس فیض صحبت سے آپ شرف نبوت سے مشرف ہونے کے اہل بن گئے۔ بقول شاعر مشرق ۔ (رح) اگر کوئی شعیب میسر آجائے ۔ شبانی سے کلیمی دو قدم ہے ۔ سو مربی صالح کی صحبت بھی ایک عظیم نعمت ہے مگر افسوس کہ آج کا مسلمان اس بارے بھی بےحس اور لاپرواہ ہوگیا ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ سو حضرت موسیٰ نے اس پیشکش اور شرط دونوں کو قبول فرما لیا اور فرمایا کہ ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی مدت میں نے پوری کرلی اس کو کافی سمجھا جائے گا۔ مجھے اس کا اختیار ہوگا اور مجھ پر اس بارے کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں یعنی جو قول وقرار آپس میں کر رہے ہیں اس پر اللہ ہمارا گواہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ سے بڑھ کر کسی کی گواہی ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے ہم اسی کو اپنے اس معاملے کے لیے گواہ بناتے ہیں۔
Top