Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 46
وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے بِجَانِبِ : کنارہ الطُّوْرِ : طور اِذْ نَادَيْنَا : جب ہم نے پکارا وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّحْمَةً : رحمت مِّنْ رَّبِّكَ : اپنے رب سے لِتُنْذِرَ : تاکہ ڈر سناؤ قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اَتٰىهُمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ نَّذِيْرٍ : کوئی ڈرانے والا مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور نہ ہی آپ طور کی جانب میں موجود تھے اس وقت جب کہ ہم نے موسیٰ کو پکارا تھا لیکن اس سب کا علم بھی آپ کو اپنے رب کی ایک خاص رحمت کے سبب ہوا تاکہ آپ خبردار کریں غفلت میں پڑے ان لوگوں کو جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (2)
56 اور نہ ہی آپ طور کے پاس موجود تھے جبکہ ہم نے موسیٰ کو پکارا : بلکہ آپ کو اس سب کا علم اپنے رب کی خاص رحمت کی بنا پر ہوا۔ چناچہ ہم نے اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم اور اپنے انتخاب سے آپ کو اس منصب کے لئے چنا اور آپ کو وحی کے ذریعے ان تمام تفصیلات سے آگہی بخشی۔ ورنہ نہ تو ان گزشتہ واقعات کو صحیح طور پر اس طرح جاننے کا اور کوئی ذریعہ آپکے پاس موجود تھا اور نہ ہی آپ کے بس میں تھا کہ آپ ازخود ان کو اس قدر تفصیلات اور ان باریکیوں کے ساتھ بیان کریں۔ سو یہ آپ ﷺ کی حقانیت کی صاف وصریح دلیل اور قطعی ثبوت ہے۔ (روح، قرطبی، مراغی، محاسن، ابن کثیر، صفوہ، فتح اور معارف وغیرہ وغیرہ) ۔ ان آیات کریمات میں { وَمَا کُنْتَ } { وَمَا کُنْتَ } کے اعادئہ و تکرار سے یہ حقیقت پوری طرح واضح اور موکد ہوجاتی ہے کہ پیغمبر ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہوتے جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ بلکہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ خاص ہے۔ اور یہ اسی کی صفت ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس اس طرح کے ارشادات سے اہل بدعت کے حاضر و ناظر کے شرکیہ عقیدے کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ والحمدللہ ۔ مگر تعجب ہوتا ہے کہ اس قدر صاف وصریح نصوص کے باوجود اور عقل و نقل کے کھلے تقاضوں کے برعکس یہ لوگ اس طرح کے نا معقول عقیدوں کو کس طرح اپنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فکر وعمل کی ہر کجی اور ہر قسم کے انحراف سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر ثابت و مستقیم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 57 پیغمبر کی بعثت کا بڑا اور اہم مقصد انذار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ کو آپ کے رب نے اپنی وحی اور نبوت و رسالت کے اس شرف عظیم سے اس لیے نوازا کہ آپ خبردار کریں غفلت میں پڑے ان لوگوں کو جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تاکہ یہ لوگ سبق لیں اور اس کے نتیجے میں یہ کفر و انکار اور ہلاکت و تباہی کے راستے سے باز آجائیں۔ یعنی آپ ﷺ کے رب نے محض اپنی رحمت بےپایاں سے یہ قرآن حکیم نازل فرمایا جس میں پوری نوع انسانیت کی صلاح و فلاح اور دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے۔ تاکہ یہ لوگ اس کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں اپنے لئے دارین کی فوز و فلاح اور سعادت و سرخروئی کا سامان کرسکیں۔ مگر انہوں نے ناشکری اور بےقدری سے کام لے کر اس سے منہ موڑا اور اعراض برتا۔ اور اس طرح انہوں نے خود اپنے لئے ہلاکت و تباہی کا سامان کیا ۔ اِلاَّ مَا شَآئَ اللّٰہُ ۔ وَالْعَیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر وحی نازل کرنے کا یہ اہتمام و انتظام اس لیے فرمایا گیا کہ آپ لوگوں کو خبردار کریں ان کے انجام سے اور ان کو بتائیں کہ ان کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔ ان کو کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں کرنا چاہیئے۔ ان کی فلاح اور نجات کس میں ہے اور ہلاکت و تباہی کس میں ہے۔ سو یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک عظیم الشان رحمت اور بےمثال کرم ہے جس سے اس نے دنیا کو نوازا ہے۔ پس اگر یہ لوگ اس کی قدر نہیں کریں گے تو اس کا سخت بھگتان انکو بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و ضلال وسوء وانحراف۔
Top