Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 48
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى١ؕ اَوَ لَمْ یَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ۚ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰهَرَا١ٙ۫ وَ قَالُوْۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمُ : آیا ان کے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ عِنْدِنَا : ہماری طرف سے قَالُوْا : کہنے لگے لَوْلَآ اُوْتِيَ : کیوں نہ دیا گیا مِثْلَ : جیسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا مُوْسٰي : موسیٰ اَوَ : کیا لَمْ يَكْفُرُوْا : نہیں انکار کیا انہوں نے بِمَآ اُوْتِيَ : اس کا جو دیا گیا مُوْسٰي : موسیٰ مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل قَالُوْا : انہوں نے کہا سِحْرٰنِ : وہ دونوں جادو تَظٰهَرَا : ایک دوسرے کے پشت پناہ وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا اِنَّا : ہم بیشک بِكُلٍّ : ہر ایک کا كٰفِرُوْنَ : انکار کرنے والے
مگر جب ان کے پاس آگیا حق ہماری طرف سے تو یہ ناشکرے لوگ اس کو ماننے کی بجائے یوں کہنے لگے کہ ان کو بھی وہی کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا ؟ کیا یہ لوگ اس سے پہلے اس کا بھی انکار کرچکے جو کہ موسیٰ کو دیا گیا تھا ؟ اور انہوں نے پوری ڈھٹائی سے کہا کہ یہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان دونوں میں سے ہر ایک کے منکر ہیں (1)
59 انسان کی بےقدری اور ناشکری کا ایک نمونہ و مظہر : سو حق تعالیٰ نے دنیا کو نور حق و ہدایت کی نعمت عظمیٰ سے نوازا لیکن لوگوں کی طرف سے اس کا انکار اور کفران نعمت ہی سامنے آیا ۔ الا ما شاء اللہ ۔ یعنی ان کو کرم بالائے کرم سے نوازا گیا مگر انہوں نے اس کا جواب کفران نعمت اور ناشکری ہی سے دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ حق و ہدایت کی روشنی جو سب نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے اس سے ان کو نوازا گیا۔ اور وہ بھی اس وقت اور ایسے دور میں جب کہ کتب سابقہ اور ان کی پاکیزہ تعلیمات کو مٹا اور مسخ کر کے کچھ کا کچھ بنادیا گیا تھا۔ اور چار سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اور یہ لوگ خود کہا کرتے تھے اور رہ رہ کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی کتاب حق و ہدایت ہوتی تو ہم ضرور اس کی پیروی کرتے۔ تو ایسی فضا اور اس طرح کی صورت حال میں جب نور حق و ہدایت اپنی کامل اور آخری شکل میں حضرت وھاب مطلق ۔ جل و علا ۔ کی بےپایاں رحمت و عنایت سے ان لوگوں کے پاس خود پہنچ گیا تو انہوں نے اس کو ماننے اور اپنانے کی بجائے اس کے ساتھ کفر کیا۔ اور یہ الٹا اس کے راستے کو روکنے کے لئے کو شاں ہوگئے۔ اور اس کے لئے یہ اس طرح کی لایعنی باتوں اور فضول و بےمقصد حجت بازیوں سے کام لینے لگے۔ سو یہ کس قدر بےانصافی، کتنی بےقدری و ناشکری اور کس قدر ظلم ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ کفران نعمت اور نا شکری سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ثابت و مستقیم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 60 منکرین کا پیغمبر پر ایک لچر اور بےمعنیٰ اعتراض : سو منکرین کا اعتراض یہ تھا کہ " اس پیغمبر کو وہی کچھ کیوں نہیں دیا گیا جو کہ موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ " یعنی عصا اور یدبیضا وغیرہ کے معجزات اور تورات کی طرح قرآن پاک کا بھی یکجا طور پر نازل ہونا وغیرہ۔ (ابن کثیر، مراغی وغیرہ) ۔ یہ اعتراض اگرچہ بظاہر کفار قریش کی طرف سے کیا جارہا تھا لیکن اس کے پیچھے اصل میں یہودی ذہنیت کارفرما تھی۔ وہی ان کے اندر یہ پھونک مار رہے تھے کہ ان صاحب سے پوچھو کہ اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو پھر آپ بھی وہی معجزات کیوں نہیں پیش کرتے جو اس سے پہلے موسیٰ نے پیش کیے۔ اور جب آپ اس طرح کے معجزات پیش نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے دعوائے نبوت میں سچے نہیں ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور کفار قریش یہود کے اکسانے سکھلانے پر یہ اعتراض آگے پھیلا رہے تھے۔ قرآن حکیم میں یہاں پر اسی کا جواب دیا گیا ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ " جب آگیا ان کے پاس حق ہماری طرف سے تو انہوں نے کہا کہ اس پیغمبر کو بھی ویسا ہی کچھ کیوں نہیں دیا گیا جو کہ اس سے پہلے موسیٰ کو دیا گیا "۔ یہاں پر حق کا لفظ رسول اور کتاب دونوں پر مشتمل ہے کہ ان میں سے ہر ایک حق بھی ہے اور ایک دوسرے کو مستلزم بھی۔ ان میں سے ایک کا ماننا دوسرے کے ماننے کو مستلزم ہے اور ایک کا انکار دوسرے کے انکار کو۔ سو یہ دونوں آپس میں لازم و ملزم ہیں اور { من عندنا } کا ارشاد اس کی عظمت شان کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ سو ایسے میں ان لوگوں کا یہ اعتراض کرنا محض بہانہ بازی اور حیلہ جوئی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ زیغ وضلال کی ہر قسم اور ہر شکل سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 61 منکرین کے اعتراض کا جواب : سو ان لوگوں کے اس اعتراض کی تردید اور اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا ان لوگوں نے اسکا انکار نہیں کیا جو کہ اس سے پہلے موسیٰ کو دیا گیا تھا ؟ "۔ یعنی آج تو یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر وہی کچھ کیوں نہیں اترا جو اس سے پہلے موسیٰ پر اتر چکا ہے۔ گویا کہ اگر ایسے ہوجاتا تو یہ ضرور ایمان لے آتے۔ حالانکہ اس سے پہلے اس کا بھی ان لوگوں نے انکار کیا جو ان کے پیشرو تھے اور جن کے نقش قدم پر یہ لوگ آج چل رہے ہیں۔ سو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترنے والے حق کا اسی طرح انکار کیا تھا جس طرح آج یہ کر رہے ہیں۔ تو انکار حق میں یہ سب شریک اور ہمرنگ ہیں۔ اس لئے ان موجودہ کفار سے فرمایا جا رہا ہے کہ کیا اس وقت کے کفار نے بھی حق کا انکار اسی طرح نہیں کیا تھا جس طرح کہ آج تم کر رہے ہو ؟- { تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ } ۔ وَالْعَیَاذ باللّٰہِ ۔ سو آج کے ان منکروں کے دلوں میں بھی وہی رعونت ہے جو کل کے ان فرعونوں کے دلوں میں تھی۔ اور ان کا عمل بھی گویا انہی کا عمل ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 62 ماضی کے ان منکرین کا حق پر اعتراض : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " انہوں نے کہا کہ یہ دونوں بڑے جادوگر ہیں جن کا باہم گٹھ جوڑ ہے "۔ اور ان دونوں میں ایک ہی کی طرح کی باتیں ہیں۔ یعنی تورات اور قرآن میں۔ جبکہ { سحران } کو اپنے ظاہر پر رکھا جائے۔ اور اگر " سحر " کو " ساحر " کے معنیٰ میں لیا جائے۔ جیسا کہ دوسری قراءت میں { ساحران } ہی آیا ہے تو اس صورت میں اس سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت محمد ہوں گے۔ یا حضرت موسیٰ و ہارون ۔ علی جمیعہم الصلوۃ والسلام ۔ (روح، ابن کثیر، معالم، مدارک، کبیر وغیرہ وغیرہ) ۔ اور اس صورت میں " سحر " کا اطلاق " ساحر " پر بطور مبالغہ ہوگا۔ جیسا کہ " زید عدل " میں پایا جاتا ہے۔ یعنی یہ دونوں بڑے جادوگر ہیں۔ نبوت و رسالت کی بات یہ دونوں محض اپنی دھونس جمانے کے لیے کہتے ہیں۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کا یہ اعتراض محض لچر اور بالکل بےحقیقت ہے۔ جس کی نہ کوئی اصل ہے نہ اساس سوائے حیلہ جوئی اور خواہ مخواہ کی حجت بازی کے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ثابت و مستقیم رکھے اور ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top