Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 4
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون عَلَا : سرکشی کر رہا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَجَعَلَ : اور اس نے کردیا اَهْلَهَا : اس کے باشندے شِيَعًا : الگ الگ گروہ يَّسْتَضْعِفُ : کمزور کر رکھا تھا طَآئِفَةً : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يُذَ بِّحُ : ذبح کرتا تھا اَبْنَآءَهُمْ : ان کے بیٹوں کو وَيَسْتَحْيٖ : اور زندہ چھوڑ دیتا تھا نِسَآءَهُمْ : ان کی عورتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے بڑی سرکشی اختیار کرلی تھی اللہ کی اس زمین میں اور اس کے باشندوں کو اس نے مختلف گروہوں میں بانٹ رکھا تھا ان میں سے ایک جماعت کو تو اس نے بری طرح دبا کر رکھا ہوا تھا ان کے لڑکوں کو وہ چن چن کر ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں کو وہ زندہ رکھ چھوڑتا بلاشبہ وہ فساد پھیلانے والے لوگوں میں سے تھا
4 فرعون بڑا سرکش ہوگیا تھا : کہ اس نے خدائی کا دعوی کرلیا تھا اور۔ { اَنَا رَبُّکُمُ الاَعْلٰی } ۔ کا نعرہ لگا دیا تھا جو کہ طغیان و سرکشی کی حد و انتہا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ بندے کا اصل مرتبہ و مقام اور اس کی حدود اربعہ یہ ہے کہ وہ بندہ بن کر رہے اور اس کائنات کے خالق ومالک کے اوامرو ارشادات کی پابندی اور پاسداری کرے۔ اور اس کے برعکس اگر وہ اس سے غافل ہو کر اپنی من مانی کرنے لگے اور بندگی کی حدود کو پھلانگ کر اپنی خدائی کا دعویدار بن جائے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور لوگوں کو خدا کی اطاعت و بندگی کی طرف بلانے کی بجائے ان سے اپنی بندگی اور غلامی کرانے لگے تو اس سے بڑھ کر علو اور سرکشی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس آیت کریمہ اور اس کے بعد کی دو آیتوں کے ذریعے اس غایت اور مقصد کو واضح فرما دیا گیا ہے جس کی یہ سرگزشت سنائی جا رہی ہے۔ اور یہ قرآن حکیم کا ایک خاص اسلوب ہے جس کو مختلف مقامات پر اختیار فرمایا گیا ہے کہ کوئی سرگزشت سنانے سے پہلے اس مدعا و مقصد کو مختصر الفاظ میں قاری اور سامع کے سامنے رکھ دیا جائے جو اس کے سنانے سے اصل مقصود ہوتا ہے تاکہ سرگزشت کے پھیلاؤ میں اصل حقیقت قاری اور سامع کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ 5 " لڑاؤ اور حکومت کرو " کی فرعونی سیاست کا نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فرعون نے اپنے ملک میں لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا "۔ تاکہ اس طرح وہ " فَرِّقْ تَسُدُّ " (Devide and Rule) یعنی " لڑاؤ اور حکومت کرو " کے مشہور سیاسی ہتھکنڈے سے کام لے کر اپنی مقصدبر آری کرتا رہے۔ اور اس مقصد کیلئے اس نے ایک طبقے کو دبا کر غلام بنا رکھا تھا اور دوسرے طبقے کو ہر طرح کے انعامات سے نوازا جا رہا تھا۔ اور یہی فرعونی طریقہ آج تک دنیا کی مختلف استعماری قوتوں اور سیاسی طالع آزماؤں نے جگہ جگہ اور طرح طرح سے اپنا رکھا ہے۔ اور اس سے وہ اپنی مقصد برآری اور اغراض خبیثہ کی تحقیق و تکمیل کے لئے کام لیتے اور اللہ کی زمین میں طرح طرح سے فساد پھیلاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ چناچہ اس دور کی سب سے بڑی شیطانی سپر پاور امریکہ نے پوری دنیا میں کمزور ملکوں اور خاص کر مسلمانوں کو طرح طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کر رکھا ہے اور وہ ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دوسری طرف وہ اسرائیل جیسے اپنے بغل بچوں کو طرح طرح قوت و مدد اور انعام و اکرام سے نواز رہا ہے ۔ وجعل اللہ کیدہم فی نحورہم - 6 فرعون کے بنی اسرائیل پر ہولناک مظالم کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ انکے بچوں کو چن چن کر ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھ چھوڑتا "۔ تاکہ ان سے وہ طرح طرح کی خدمتیں لے سکے اور فائدے اٹھا سکے۔ نیز اس لئے کہ اس صنف نازک اور مخلوق ضعیف سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ سو یہ ظلم و ستم اور جبر وعدوان کی ایک واضح مثال تھی جو فرعون اور قبطیوں کی طرف سے بنی اسرائیل پر ڈھایا جارہا تھا اور جس میں نبیوں کی نسل سے تعلق رکھنے والی یہ قوم ایک زمانے تک پستی رہی تھی۔ بہرکیف فرعون جو خود خدا بن بیٹھا تھا اس نے بنی اسرائیل کو غلاموں کی حیثیت دے رکھی تھی اور اپنی قبطی قوم کو اس نے یہ اختیار دے رکھا تھا کہ وہ بنی اسرائیل سے غلاموں کی طرح کام لیں۔
Top