Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 68
وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ١ؕ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيَخْتَارُ : اور وہ پسند کرتا ہے مَا كَانَ : نہیں ہے لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : اختیار سُبْحٰنَ اللّٰهِ : اللہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں
اور تمہارا رب پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے اور چنتا اور برگزیدہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے یہ اختیار ان لوگوں کا کام نہیں اللہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (1)
94 خلق و اختیار حق تعالیٰ ہی کی شان ہے : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تمہارا رب پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے اور چتنا ہے جو چاہتا ہے "۔ پس جس طرح اس کی صفت خلق و ایجاد میں کسی کا کوئی دخل و اختیار نہیں وہ جو چاہے اور جیسا چاہے پیدا کرے اسی طرح اس کی صفت عطاء و اختیار میں بھی کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا۔ وہ جو احکام چاہے صادر فرمائے اور جس کو چاہے شرف نبوت سے سرفراز فرمائے۔ لہذا کفار قریش کا نبوت محمدیہ پر یہ اعتراض بھی لغو اور باطل ہے کہ یہ نعمت مکہ اور طائف کے کسی سردار کو کیوں نہ بخشی گئی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وقالوا لولا نُزِّلَ ہذَا الْقُرْآنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ } ۔ (الزخرف : 31) ۔ کیونکہ اللہ پاک سب کچھ خوب جانتا ہے کہ رسالت کے شرف سے کس کو نوازا جائے اور کون اس کے لائق اور اس کا اہل ہے ۔ { اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثٌ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } ۔ (الانعام :125) ۔ سو فرشتوں کو یا کسی اور مخلوق کو جو بھی کوئی شرف و مرتبہ حاصل ہے وہ سب اسی کی عطا و بخشش سے ہے نہ کہ کسی کا کوئی ذاتی کمال یا شخصی استحقاق۔ سو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو خدائی اختیارات شرکت یا حصہ داری کا کوئی حق حاصل ہوگیا۔ ایسوں کے لیے کوئی اختیار نہیں۔ سب اختیار اسی وحدہ لا شریک کو حاصل ہے ۔ سو خلق و اختیار حق تعالیٰ ہی کی شان اور اسی کا اختصاص ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 95 اللہ تعالیٰ کی شان تنزیہہ کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ پاک ہے اس شرک سے جو لوگ کرتے ہیں "۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ وہ پاک اور بالاو برتر ہے ان تمام شریکوں سے جنہیں یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ مدعا و مقصود اور نتیجہ و مآل دونوں صورتوں اور دونوں تعبیروں کا بہرحال ایک ہی رہتا ہے کہ وہ وحدہ لاشریک ہر طرح کے شرک اور ہر قسم کے شریکوں سے پاک اور برتر ہے۔ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ مانگو تو اسی سے مانگو اور رجوع کرو تو ہر حال میں اسی کی طرف کرو۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات سے طرح طرح سے اس کی تصریح و توضیح فرمائی ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ سو نہ کوئی اس کی ذات وصفات میں اس کا شریک وسہیم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کے حقوق و اختیارات میں۔ وہ ہر لحاظ سے یکتا اور وحدہ لاشریک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے عبادت گزار بندے ہیں اور بس۔ کسی خدائی صفت میں ان کی شرکت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top