Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 77
وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ
وَابْتَغِ : اور طلب کر فِيْمَآ : اس سے جو اٰتٰىكَ : تجھے دیا اللّٰهُ : اللہ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر وَلَا تَنْسَ : اور نہ بھول تو نَصِيْبَكَ : اپنا حصہ مِنَ : سے الدُّنْيَا : دنیا وَاَحْسِنْ : اور نیکی کر كَمَآ : جیسے اَحْسَنَ اللّٰهُ : اللہ نے نیکی کی اِلَيْكَ : تیری طرف (ساتھ) وَلَا تَبْغِ : اور نہ چاہ الْفَسَادَ : فساد فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور آخرت کے حقیقی گھر کو بنانے کی فکر کر اس مال و دولت سے جو اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اور مت بھول اپنے حصے کو دنیا سے اور بھلائی کر جس طرح کہ اللہ نے بھلائی کی ہے تجھ سے اور تو فساد کے درپے نہ ہو اللہ کی اس زمین میں بیشک اللہ پسند نہیں فرماتا فساد بپا کرنے والوں کو (3)
109 مال و دولت کا صحیح مصرف اور حقیقی فائدہ : سو مال و دولت کا صحیح مصرف یہ ہے کہ اس کو راہ حق میں اور حق تعالیٰ کی تعلیمات وارشادات کے مطابق خرچ کر کے اسے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ بنایا جائے۔ چناچہ اس کی قوم کے ان دانش مندوں نے اس کو مزید نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ مال و دولت تجھے اللہ نے دے رکھا ہے اس سے تو آخرت کے اپنے اصل اور حقیقی گھر کو بنانے کی فکر کرو۔ یہ ہے مال و دولت کا اصل مصرف کہ اس کو راہ حق میں خرچ کرکے اس سے آخرت کی کمائی کا سامان کیا جائے۔ اور اس طرح اسے دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس صورت میں وہ دولت ایک نعمت بن جائے گی۔ جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ۔ " نِعْمَ الْمَال الصَّالِحُ للرَّجُلِ الصَّالحِ " ۔ " کہ وہ مال جو نیک انسان کو نیک طریقے سے ملے وہ بڑی نعمت ہے "۔ اسی لئے قرآن پاک میں مال کو خیر کے لفظ سے بھی تعبیر فرمایا گیا ہے۔ پس مال و دولت فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں، بلکہ اس کی اچھائی برائی کا مدارو انحصار دراصل انسان کی نیت و ارادے اور اس کے کسب و انفاق پر ہے۔ اگر وہ اس کو جائز اور حلال طریقے سے کما کر اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور خلق خدا کی خدمت اور بہتری کے لیے خرچ کرے گا تو وہ اس کے لیے خیر ہی خیر اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ بنے گا۔ ورنہ وہ اس کے لیے دنیا و آخرت کی تباہی کا باعث ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 110 اُخروی زندگی کی کامیابی کے لیے فکر و کوشش کا درس : سو اس سے اپنی اخروی زندگی کو یاد رکھنے اور اس کے لیے فکر و کوشش کرنے کے بارے میں ایک نہایت حکیمانہ تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا کہ " تم دنیا سے اپنے حصے کو مت بھولو "۔ عام طور پر مفسرین کرام نے اس ارشاد کا مطلب یہ لیا ہے کہ تم اس دنیا میں بھی اپنا حصہ نظرانداز نہ کرو۔ یعنی اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے وغیرہ کی ضروریات ترک نہیں کرنا کہ تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔ اس صورت میں { لا تنس } بمعنی " لا تترک " ہوگا۔ اور یہ نہی کراہت تنزیہہ کے معنیٰ میں ہوگی۔ عام طور پر حضرات مفسرین نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے لیکن یہ بات کچھ دل کو لگتی نہیں کیونکہ دنیاوی فوائد و منافع حاصل کرنا کوئی ایسا مقصد نہیں کہ قرآن حکیم اس کے بارے میں اس طرح تاکیدی حکم دے۔ بلکہ یہ دنیا تو قرآن و سنت کی روشنی میں کسی اعتبار کے لائق ہے ہی نہیں کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ پس اس ارشاد کا مقصود و مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا سے آخرت کے لئے توشہ لے جانا نہیں بھولنا کہ یہ دنیا دراصل آخرت کی کمائی کے لئے مزرعہ اور کھیتی ہے۔ اور آج اس کا موقعہ ہے کہ انسان اپنی مرضی اور اپنے قصد و ارادے سے اس کو وجوہ خیر میں صرف و خرچ کرکے آخرت کی اپنی اصل اور حقیقی زندگی کیلئے سامان کرے۔ ورنہ فرصت حیات کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد اس کا کوئی موقعہ نہیں رہے گا۔ اور { مِنَ الدُّنْیَا } " دینا سے " کے کلمہ کریمہ سے بھی اسی مفہوم کی تصدیق و تائید ہوتی ہے۔ ورنہ اوپر والا مفہوم جو کہ عام طور پر سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے اس کے مناسب { من الدنیا } نہیں بلکہ " فی الدنیا " کی تعبیر ہے۔ اور یوں بھی ان ابنائے دنیا کو جو کہ دنیا ہی کیلئے جیتے اور مرتے ہوں اور جن کا مطمح نظر اور مقصود حیات ہی دنیاوی مال و دولت کے مزے لوٹنا اور تن وتوش کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کرنا ہو ان کیلئے اس ہدایت و ارشاد کے کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتے کہ تم اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا کہ ان کا تو جینا مرنا ہی دنیا کیلئے ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک اس ارشاد ربانی کا صحیح اور دل لگتا مفہوم و مطلب یہی ہے کہ اس دنیوی مال و دولت سے جو آج تمہیں میسر ہے اپنی آخرت اور وہاں کی حقیقی اور ابدی زندگی کیلئے توشہ لے جانا نہ بھولنا۔ یہی مطلب وقیع بھی ہے اور دل کو لگنے والا بھی۔ اور آیت کے کلمات کریمہ سے ظاہر اور متبادر بھی ۔ والحمد للّہ الّذی اَلْہمَنِیْہِ ۔ بہرکیف قارون کی قوم کے سمجھدار اور اس کے خیر خواہ لوگوں نے اس سے کہا کہ دنیاوی مال و دولت کی بنا پر اترانے کی بجائے اس کو اپنی آخرت کی کمائی کا ذریعہ بناؤ کہ اس دنیا کی ہر چیز فانی اور آنی جانی ہے۔ اس کی کسی بھی چیز کیلئے بقا اور دوام نہیں۔ اصل چیز ہے آخرت کی وہ زندگی جو کہ حقیقی بھی ہے اور دائمی اور ابدی بھی۔ سو اس دنیا میں تمہارے کام وہی چیز آئے گی جو تم اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کیلئے خرچ کرو گے۔ ورنہ تمہارا یہ مال و دولت تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا بلکہ یہ الٹا تمہارے لیے ہلاکت و تباہی کا باعث بن جائے گا۔ مگر اس نے اپنی بدبختی کی بنا پر نصیحت و خیرخواہی کی کسی بات پر کان نہ دھرا اور بالآخر وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہا ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 111 زمین میں فساد مت پھیلاؤ : بیشک اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سو قارون کی قوم کے ان دانشمندوں نے اس بگڑے ہوئے انسان سے مزید کہا کہ تو زمین میں فساد مچانے کے درپے مت ہو اور اس میں فساد مت پھیلا اللہ کے حکم سے سرتابی کرکے اور اس کی عبادت و بندگی سے منہ موڑ کر کہ یہی چیز اصل میں فساد و بگاڑ اور ہلاکت و تباہی کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس کا باعث انسان کا وہ غلو و استکبار ہوتا ہے جس سے بندہ حدود بندگی سے نکل کر خدائی حدود اور اس کے حقوق میں مداخلت کرنے لگتا ہے جسکے نتیجے میں وہ دائمی ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں جاگرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو فساد فی الارض صرف چوری ڈکیتی اور راہزنی وغیرہ ہی کا نام نہیں۔ یہ تو اس کے محض بعض مظاہر ہیں۔ فساد فی الارض جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا اصل میں علو واستکبار ہے جس سے انسان حدود بندگی سے نکل کر خداوند قدوس کی حدود اور اس کے حقوق میں مداخلت کرنے لگتا ہے۔ اور جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں وہ مفسدین فی الارض میں شامل ہیں خواہ وہ اصلاح و خیرخواہی کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں۔ اور خواہ وہ اپنا کام کتنی ہی دانش فروشیوں سے کیوں نہ کرتے ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو خداوند قدوس کیسے پسند کرسکتا ہے۔ سو ایسے فسادی عناصر کی حیثیت اس کے چمن میں خود رو جھاڑیوں اور اس کے خوان کرم پر ناخواندہ و ناپسندیدہ مہمانوں کی ہے۔ بالآخر وقت آنے پر وہ ان خود رو جھاڑیوں کو اکھاڑ پھینکے گا اور ان ناپسندیدہ عناصر کو بری طرح کھدیڑ دیا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top