Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 88
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١۫ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ١ؕ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَدْعُ : اور نہ پکارو تم مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : کوئی معبود اٰخَرَ : دوسرا لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا كُلُّ شَيْءٍ : ہر چیز هَالِكٌ : فنا ہونے والی اِلَّا : سوا اس کی ذات وَجْهَهٗ : اس کی ذات لَهُ : اسی کے لیے۔ کا الْحُكْمُ : حکم وَ : اور اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤگے
اور پکارنا نہیں اللہ کے ساتھ کسی بھی اور خود ساختہ معبود کو کوئی معبود نہیں ساوئے اس وحدہ لاشریک کے ہر چیز نے بہرحال ہلاک اور فنا ہوجانا ہے بجز اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے اسی کے لیے ہے حکم اور اسی کی طرف لوٹایا جائے گا تم سب کو اے لوگوں (2) !۔
127 معبود برحق اللہ تعالیٰ ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پکارنا نہیں اللہ کے ساتھ کسی بھی اور ۔ خودساختہ ۔ معبود کو " کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کوئی بھی ہستی ایسی نہیں ہے جس کو اس طرح کا کوئی حق پہنچتا ہو کہ معبود برحق بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور عبادت کی ہر قسم اور ہر شکل اسی کا حق اور اسی کے ساتھ مختص ہے۔ سو اس طرح شرک کی تردید کیلئے یہ مزید تاکید فرما دی گئی کہ اس کے سوا کسی بھی اور معبود کو نہیں پکارنا تاکہ اس طرح مداہنت کی ہر قسم کا سدِّ باب ہوجائے۔ مگر افسوس کہ اس قدر تاکید و تکرار کے باوجود غیر اللہ کے پکارنے کے اس ہولناک جرم کا ارتکاب آج تک کیا جا رہا ہے اور دھڑلے سے کیا جا رہا ہے۔ کھلے مشرکوں کے علاوہ کلمہ گو مشرک بھی اس جرم میں کھلے عام شریک اور ملوث ہیں۔ ان کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اللہ کو پکارنے اور " یا اللہ مدد " کہنے کی توفیق نہیں ملتی۔ لیکن مخلوق میں سے طرح طرح کے خود ساختہ مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کو وہ اعلانیہ پوجتے پکارتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم والی اللہ المشتکیٰ - 128 کوئی معبود نہیں سوائے اس وحدہ لاشریک کے : جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور ہر شکل اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے۔ اس کے سوا اور کسی بھی ہستی کیلئے کسی بھی طرح کی عبادت بجا لانا شرک ہوگا جو کہ ظلم عظیم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس قیام اسی کیلئے، رکوع و سجود اسی کیلئے، طواف اسی کیلئے، نذر و نیاز اسی کیلئے اور غائبانہ حاجت روائی و مشکل کشائی کیلئے پکارنا اسی کا اور صرف اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ معبود برحق بہرحال وہی ہے۔ پس بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اور ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک پر رکھو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلاً } ۔ (المزمل : 9) ۔ 129 سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر اور حصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ تم سب کو ۔ اے لوگو ۔ بہرحال اسی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ آخرت میں تو ہر طرح سے اور اس دنیا میں بھی تکوینی امور میں اس کے سوا کسی کے حکم و فرمان کا کوئی دخل نہیں۔ لہٰذا تشریعی امور میں بھی فرماں روائی کا حق اسی کا ہے۔ اگر کوئی اس کو نہیں مانے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ حاکم بہرکیف وہی اور صرف وہی ہے اور ہر چیز کا رجوع بہرحال اسی کی طرف ہے۔ اور ہر شے کی باگ ڈور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اسی نے باقی رہنا ہے۔ اس کے سوا ہر چیز فانی ہے اور اس نے بہرحال اپنے وقت پر فنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذَو الْجَلَالِ وَالاِکْرَامِ } ۔ (الرحمن : 27-26) اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ سب سے سچی بات وہ ہے جو لبید شاعر نے کہی۔ یعنی " اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی اور بےحقیقت ہے "۔ بہرکیف سب کو اس حیّ وقیوم کے حضور لوٹ کر حاضر ہونا ہے اور وہاں پر اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا صلہ و ثمر اور بدلہ پانا ہے۔ لہذا ہر کوئی دیکھ لے کو وہ وہاں کیلئے کیا کرکے جارہا ہے اور وہ کس چیز کی توفیق رکھ سکتا ہے ؟ ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف { الیہ ترجعون } کے اس مختصر سے جملے سے کئی اہم اور بنیادی حقائق کو واضح فرما دیا گیا ہے جس سے کفر و شرک سمیت ہر بد دینی اور بےدینی کے مداخل و منافذ کو یکسر بند کردیا گیا ہے۔ مثلا یہ کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم مر مٹ کر یونہی ختم ہوجائیں گے کوئی حساب نہیں ہوگا۔ سو اس سے ایسے لوگوں کی اس گمراہی اور غلط فہمی کی جڑ نکال دی گئی کہ تم لوگ کوئی کیڑے مکوڑے یا برسات کی مینڈکیں نہیں ہو کہ یونہی مر مٹا کر ختم ہوجاؤ اور بس۔ بلکہ تم تو انسان اور ایک نہایت ذمہ دار مخلوق ہو۔ تم نے بہرحال دوبارہ اٹھ کر اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا اور بھگتان بھگتنا ہے۔ اسی طرح اس ارشاد سے ان لوگوں کی گمراہی کی جڑ بھی نکال دی گئی جو کہتے ہیں کہ ہم اس کے بعد نئے جون میں آجائیں گے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نہیں یہ سب تمہاری اپنی من گھڑت باتیں اور خود ساختہ مفروضے ہیں جن کی نہ کوئی اساس ہے نہ بنیاد۔ تم سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اس کے سوا تمہارا نہ کوئی ماویٰ ہے نہ مرجع۔ پھر لفظِ " رجوع " کے اندر اس کے لیے ایک دلیل بھی مخفی ومستور ہے۔ کیونکہ اس کے معنیٰ لوٹنے کے آتے ہیں۔ اور لوٹنا وہیں اور اسی کی طرف ہوتا ہے جہاں سے کوئی آیا ہوتا ہے۔ سو جب تم لوگ اسی وحدہ لاشریک کی تخلیق وتکوین کا نتیجہ وثمرہ ہو اور تمہارا وجود اسی کی تخلیق و عنایت کا نتیجہ ہے تو تم سب کو بالآخر اور بہرحال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر { ترجعون } کا صیغہ بھی مجہول کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہو اور لوٹائے جاؤ گے۔ تم چاہو یا نہ چاہو ایسا بہرحال ہوتا ہے اور ہو کر رہے گا۔ سو جس طرح تمہارا اس دنیا میں آنا تمہاری اپنی مرضی اور اختیار سے نہیں تھا ایسے ہی تمہارا یہاں سے جانا اور اس کی طرف لوٹنا بھی نہ تمہاری مرضی پر ہے اور نہ تمہارے ارادئہ و اختیار کا اس میں کوئی عمل دخل ہوسکتا ہے ۔ سبحاناللہ ۔ { الیہ ترجعون } کے اس مختصر سے اور سیدھے سادے جملے میں کتنے اہم اور جس قدر عظیم الشان درس ہیں ہر اس شخص کے لیے جس کا سینہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کے فہم کے لیے کھول دے ۔ فالحمد للہ رب العالمین -
Top