Tafseer-e-Madani - Al-Ankaboot : 31
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ١ۚ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَۚۖ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَآ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰى : خوشخبری لے کر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم مُهْلِكُوْٓا : ہلاک کرنے والے اَهْلِ : لوگ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ : اس بستی اِنَّ : بیشک اَهْلَهَا : اس کے لوگ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : ظالم (بڑے شریر) ہیں
اور جب پہنچ گئے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم کے پاس عطاء فرزند کی خوشخبری کے ساتھ تو ابتدائی گفتگو کے بعد کہا کہ بیشک ہم نے ہلاک کرنا ہے اس بشتی کے باشندوں کو کہ بیشک اس کے باشندے بڑے ہی ظالم ہیں
37 رحمت اور نقمت دونوں اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے "۔ یعنی { البشریٰ } میں الف لام عہد کا ہے۔ مراد ہے عطائے فرزند کی خوشخبری۔ جیسا کہ دوسری جگہ اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ یہ بچہ آپ کو بڑھاپے میں اور بڑی تمناؤں اور دعاؤں و التجاؤں کے بعد ملا تھا۔ بہرکیف یہاں سے یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رحمت اور نقمت دونوں اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں کہ وہی فرشتے جو قوم لوط کیلئے عذاب کا تازیانہ لیکر آتے ہیں وہی حضرت ابراہیم کیلئے حضرت اسحاق جیسے بیٹے اور یعقوب جیسے پوتے کی خوشخبری لاتے ہیں۔ سو اللہ ۔ وحدہ لاشریک۔ اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ کے مطابق جسکو چاہے رحمت سے نوازے اور جسکو چاہے نقمت سے دوچار کرے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جس طرح کہ ایک ہی بارش کسی کیلئے رحمت کا ذریعہ بنتی ہے اور کسی کیلئے نقمت اور عذاب کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے ان تمام مشرک قوموں کی تردید ہوجاتی ہے جو اس وہم میں مبتلا ہیں کہ خیر کا خالق الگ دیوتا ہے اور شر کا الگ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو رحمت و نقمت کی ہر حالت میں اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 38 قوم لوط کی ہلاکت کا کام : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ " ہم نے ہلاک کرنا ہے اس بستی کے باشندوں کو " کیونکہ ان فرشتوں کو خاص طور پر اسی مہم کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس لئے وہ اس کام کو مجازی طور پر اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جیسے بادشاہ کی طرف سے بھیجا جانے والا کوئی مبعوث کسی مہم کو اپنی طرف منسوب کر کے کہے کہ ہم نے یہ کام کرنا ہے۔ کیونکہ اس کو سرکاری طور پر یہ کام سونپا گیا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ مجازی طور پر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ لہٰذا اس سے اللہ کے بندوں کے لئے خاص خدائی اختیارات ثابت کرنا اور ان کے لئے مافوق الاسباب متصرف ہونے کے شرکیہ عقیدے کا جواز ڈھونڈنا جس طرح کہ اہل بدعت کے بعض بڑوں نے کیا ہے، بالکل غیر منطقی اور بےبنیاد بات ہے کہ یہاں تو نصِّ صریح سے ثابت ہے کہ ان فرشتوں کو یہ کام سونپا گیا تھا اور کسی کے لئے ایسی کوئی نص کہاں ہے ؟ لہذا اس پر قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ بہرکیف ان فرشتوں نے اگرچہ حضرت ابراہیم کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سے نوازا لیکن ان کا اصل کام قوم لوط کو ہلاک کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ " بیشک ہم نے اس بستی کے باشندوں کو ہلاک کرنا ہے کہ یہ لوگ ظالم ہیں " ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 39 ظلم کا نتیجہ و انجام ہلاکت و تباہی ۔ والعیاذ باللہ : سو فرشتوں نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ " ہم نے اس بستی کے باشندوں کو ہلاک کرنا ہے کہ یہ لوگ یقینا بڑے ظالم ہیں "۔ سب سے بڑا ظلم جس میں وہ مبتلا تھے شرک تھا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا تھا ۔ { اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ } ۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ لوگ دوسرے بھی طرح طرح کے مظالم میں ملوث و مستغرق تھے۔ پس ان کے آپریشن کا وقت آن پہنچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اجازت اور ڈھیل بھی ایک حد تک ہی ہوتی ہے۔ سو ظلم کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے اور ظالم کو خواہ جتنی بھی ڈھیل ملے اس نے آخرکار تباہی کے گھاٹ پر اتر کر رہنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف۔ { اِنَّ اَہْلَہَا کَانُوا ظالِمِیْنَ } ۔ کے اس جملے سے فرشتوں نے قوم لوط کی ہلاکت کی علت بیان کردی اور اس امر کو واضح کردیا کہ ان کو ہلاک کیے جانے کا فیصلہ خود ان کے ظلم کے نتیجے میں کیا گیا۔ اور ان لوگوں کا یہ ظلم ان کے کفر و شرک کے عمومی جرم کے علاوہ فطرت کی راہ سے انحراف کے اس خاص جرم کی بنا پر بھی تھا جس کا ارتکاب یہ لوگ کھلم کھلا اور علی الاعلان کرتے تھے۔ اور جب اللہ کے رسول نے ان کو اس کے نتائج سے خبردار کیا تو انہوں نے ان کی بات کو ماننے اور ان کی تنبیہ وتحذیر اور نصیحت و موعظت پر کان دھرنے کی بجائے الٹا ان سے عذاب لانے کا مطالبہ کردیا۔ سو اس قماش کے لوگوں پر اللہ کا جو عذاب آتا ہے وہ خود ان کے اپنے ظلم کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ اللہ ان پر کوئی ظلم نہیں کرتا ۔ { وَمَا ظَلَمَہُمَ اللّٰہُ وَلٰکِنْ کَانُوْا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ } ۔ سو ظلم کا انجام برا ۔ اللہ تعای ظلم کی ہر قسم اور شکل سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top