Tafseer-e-Madani - Al-Ankaboot : 41
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ١ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا١ؕ وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے اتَّخَذُوْا : بنائے مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَوْلِيَآءَ : مددگار كَمَثَلِ : مانند الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی اِتَّخَذَتْ : اس نے بنایا بَيْتًا : ایک گھر وَاِنَّ : اور بیشک اَوْهَنَ : سب سے کمزور الْبُيُوْتِ : گھروں میں لَبَيْتُ : گھر ہے الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی کا لَوْ كَانُوْا : کاش ہوتے وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے
مثال ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کے سوا کچھ اور کارساز بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی ہے کہ وہ اپنا کوئی گھر بنالے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گھروں میں سب سے زیادہ کمزور گھر مکڑی ہی کا ہوتا ہے کاش کہ یہ لوگ جان لیتے حق اور حقیقت کو
57 شرک اور اہل شرک کی تمثیل مکڑی کے جالے سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز بنا رکھے ہیں ان کی مثال ایسے ہے جیسے مکڑی نے ایک گھر بنایا " اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ سو جس طرح مکڑی کا جالا بظاہر بڑا پھیلا ہوا اور تنا ہوا ہوتا ہے اور وہ مکھی مچھر جیسی کمزور چیزوں کو پھانس بھی لیتا ہے مگر نہ وہ سردی گرمی سے بچا سکتا ہے نہ ہی باد و باراں وغیرہ کے اثرات سے۔ اور وہ ہوا کے ایک ہی جھونکے یا کسی معمولی ٹھوکر سے تار تار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ان کے ان معبودان باطلہ اور کارسازان خود ساختہ کا حال ہے جن کو ان لوگوں نے اللہ پاک کے سوا ازخود گھڑ رکھا ہے اور ان کو یہ لوگ حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر پوجتے پکارتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت کا حال ہے کہ ان کے آستانے اور دربار ظاہری طور پر اگرچہ بڑے سجے سجائے ہوں گے۔ دولت کی ریل پیل ہوگی۔ طرح طرح کی سریں اور دھنیں رقص کناں ہوں گی۔ ہر طرف سج دھج اور زرق برق کا سماں ہوگا۔ چیلے چانٹے خوب پھیلے بکھرے ہوں گے اور وہ جھوٹے قصے، جعلی کہانیاں اور بناوٹی کرامتیں سنا سنا کر لوگوں کو طرح طرح کی شرکیات کی ترغیب دے رہے ہوں گے مگر حقیقت میں ان کو خدائے پاک کی خدائی میں ذرا برابر کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ { مَا یَمْلَکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ } ۔ کے ارشاد ربانی کے مصداق کچھ بھی کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ سو ایسوں کو پکارنے والے اپنے مالک حقیقی سے روگرداں ہو کر۔ { خَسِرَ الدُّنْیا وَ الاٰخِرَۃَ } ۔ کا مصداق بنے ہوتے ہیں ۔ { ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ } ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں مکڑی کے جالے کی اس تشبیہ سے شرک کے ضعف اور اس کے بودے پن کو واضح فرمایا گیا ہے کہ جن جھوٹے سہاروں کو یہ لوگ بہت کچھ سمجھتے ہیں وہ مکڑی کے جالوں کی طرح ہیں۔ سو مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جو طرح طرح کے سہارے گھڑ رکھے ہیں وہ سب اسی طرح جھوٹے اور بےحقیقت ہیں اور وہ دنیا کی طرح آخرت کے اس جہاں میں بھی جھوٹے اور بےحقیقت ثابت ہوں گے۔ کل قیامت کے روز جب خداوند قدوس کا قانون مجازات اور اس کا عدل بےلاگ ظہور میں آئے گا وہاں پر ان لوگوں کے یہ خود ساختہ و من گھڑت شفعاء و سفارشی ان کے کچھ کام نہ آسکیں گے جن پر یہ لوگ دنیا میں تکیہ کیے بیٹھے تھے۔ تب ان پر یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ جن سہاروں کو یہ لوگ قلعے کی دیوار سمجھ رہے تھے ان کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں تھی۔
Top