Tafseer-e-Madani - Al-Ankaboot : 42
اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا يَدْعُوْنَ : جو وہ پکارتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا
بیشک اللہ جانتا ہے ہر اس چیز کو جس کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں اللہ کے سوا اور وہی ہے سب پر غالب نہایت حکمت والا
58 اللہ تعالیٰ کی عظمت شان اس کے احاطہ علم کے اعتبار سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے ان سب چیزوں کو جن کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں اللہ کے سوا "۔ تعمیم ملاحظہ ہو کہ اول تو { شیئ } خود نکرہ ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔ پھر اس پر { من } استغراقیہ سے مزید تاکید۔ یعنی کوئی بھی چیز خواہ کوئی فرشتہ ہو یا انسان، شجر ہو یا حجر، بت ہو یا جن وغیرہ وغیرہ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ مافوق الاسباب کسی کو بھی پکارنا شرک ہے جو کہ سب سے بڑا گناہ اور ناقابل معافی جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اب وہ لوگ دیکھ لیں جو اس وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر اس کی عاجز مخلوق کو پکارتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے " یا رسول اللہ اغثنی " کوئی کہتا ہے " یا علی مدد " اور کوئی کہتا ہے " یا پیر دستگیر " وغیرہ وغیرہ۔ سو ایسے لوگ خود دیکھ اور سوچ لیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کس انجام کے مستحق ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ ہاں اسباب کے درجے میں کسی دنیاوی حاکم کے سامنے کسی امر سے متعلق شکایت کرنا، ڈاکٹر یا حکیم سے علاج کرانا، دوا لینا وغیرہ اس میں داخل نہیں۔ کہ شریعت مطہرہ نے دنیا کے اس دارالاسباب میں ان اسباب کو اختیار کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ اجازت دی ہے۔ اور پیغمبر ﷺ نے خود اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ ؓ اور تابعین و اتباع تابعین نے اپنی اپنی زندگیوں میں اس پر عمل کر کے دکھایا۔ لہذا ایسا کرنا نہ منع ہے اور نہ ہی اس پر مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو پکارنے کو اس پر قیاس کرنا صحیح ہے کہ مافوق الاسباب مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت اور اسی کا خاصہ ہے۔ اور اس کی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس میں شریک ماننا شرک ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یہی بات جمہور مفسرین کرام نے کہی ہے اور کہتے ہیں۔ چند حوالے ملاحظہ ہوں ۔ " أی مِنْ دُوْنِہ مِنَ الاَوْثَانِ وَالاَصْنَامِ وَالْجِنِّ والِانس وانَّہا لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضَرّ " ۔ (المراغی : ج 20 ص 144) ۔ یعنی اس کے سوا جس کو بھی یہ لوگ پکارتے ہیں خواہ وہ مورتیاں اور بت ہوں یا جنوں اور انسانوں میں سے کچھ ہستیاں کہ ان کے اختیار میں نہ نفع ہے نہ نقصان ۔ " أی الذی تَدْعُوْنَہ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِن شَیْ " ۔ (جامع البیان : ج 2 ص 39) ۔ یعنی " اللہ کے سوا جس کسی چیز کو بھی تم لوگ پکارو گے وہ سب اس میں داخل ہے " ۔ مِنْ مَلَکٍ أوْ بَشَرٍ أوْ حَجَر۔ یعنی " خواہ وہ کوئی فرشتہ ہو یا انسان یا درخت اور پتھر " کہ " شی " کا عموم ان سب ہی کو شامل ہے۔ اور دعا کے لغوی معنیٰ ندا و پکار کے ہی آتے ہیں۔ لغت کی تمام کتابوں میں اس کے یہی معنیٰ مذکور ہیں۔ چناچہ امام راغب اصفہانی کہتے ہیں ۔ " الدعا النداء " ۔ (مفردات : ص 160) ۔ اب ذرا اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کی منطق ملاحظہ ہو اور ان کی جہالت یا تجاہل عارفانہ کو دیکھئے کہ وہ موصوف اس موقعہ پر اس بارے میں لکھتے ہیں کہ " اس قسم کی آیات میں بعض فضلائے دیوبند { یدعون } کے معنیٰ پکارنے کے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ " یا رسول اللہ " اور " یا غوث " وغیرہ کہنا شرک ہے۔ مگر خود ہر حاجت پر امیروں حکیموں اور حاکموں کو پکارتے ہیں "۔ اب ان بدعتی تحریف پسندوں سے کوئی پوچھے کہ کیا صدیاں پہلے گزرنے والے یہ سب علماء و مفسرین کرام دیو بند کے فضلاء ہی تھے ؟ سو یہاں سے یہ بھی اندازہ کیجئے کہ فضلائے دیوبند کا اعلانِ حق اہل بدعت کے دل و دماغ پر کس طرح سوار ہے کہ ان کو ہر طرف وہی نظر آتے ہیں۔ اور کیا اہل بدعت کے اس مفتی صاحب کو تحت الاسباب اور فوق الاسباب کا فرق بھی معلوم نہیں ؟ اگر معلوم نہیں اور پھر بھی دعویٰ ہے شیخ التفسیر اور مفتی ہونے کا تو اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اور اگر معلوم ہونے کے باوجود جان بوجھ کر سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو پھر معاملہ اور بھی افسوسناک اور سنگین ہوجاتا ہے ۔ وَالْعَیَاذ باللّٰہِ ۔ اِنْ کُنْتَ لا تَدْرِیْ فَتِلْک مُصِیْبَۃ۔ وَإنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالمْصِیْبَۃُ اَعْظَمُ ۔ والعیَاذ باللّٰہِ العظیم من کُلِّ سُوْئٍ وَشرہ ۔ بہرکیف ان مذکورہ بالا چند حوالوں سے واضح ہوگیا کہ یہ مسئلہ صرف فضلائے دیوبند کا نہیں جس طرح کہ ایسے اہل بدعت کا کہنا ہے۔ بلکہ یہ جمہور امت اور سلف و خلف کے تمام اہل علم و فضل کا قول ہے۔ اور علماء و فضلائے دیوبند بھی وہی کچھ کہتے ہیں جو کہ سلف امت سے ثابت و منقول ہے اور جو کہ مقتضیٰ ہے نصوص کتاب و سنت کا ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم وثابت قدم رکھے ۔ آمین۔ 59 اللہ تعالیٰ کی صفت عزت وحکمت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور انداز حصر وقصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا " اور وہی ہے سب پر غالب نہایت حکمت والا "۔ لہذا اس کو نہ کسی معین و وزیر کی ضرورت ہے اور نہ کسی مساعد و مشیر کی۔ نہ اس کی گرفت سے کوئی بچ کر نکل سکتا ہے اور نہ اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا سکتا ہے کہ وہ عزیز و غالب اور نہایت ہی زبردست ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور وہ فوراً نہیں پکڑتا بلکہ زمانوں پہ زمانے ڈھیل دئے چلا جاتا ہے کہ وہ حلیم بھی ہے اور حکیم و کریم بھی ۔ جل و علا شانہ ۔ سو عزیز اور حکیم کی ان دونوں صفتوں کے ذکر سے کئی اہم اور انقلاب آفریں درس ملتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جو صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرے گا اور حقیقی معنوں میں اس کا بندہ بن کر رہے گا ۔ وباللہ التوفیق ۔ تو وہ عزت اور حکمت کی دولت سے سرفراز ومالا مال ہوگا۔ اور جو اس سے منہ موڑے گا اور اعراض و روگردانی کرے گا وہ محروم اور خائب و خاسر ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ کہ اس مالک الملک ربِّ عزیز و حکیم سے منہ موڑنا سب سے بڑی محرومی اور حقیقی خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو وہ سب پر غالب اور سب کی رسائی سے بالا و برتر ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اس کا ہر کام اور ہر حکم نہایت علم و حکمت پر مبنی ہے۔ سو اس عزیز و حکیم کے کسی امر و ارشاد اور قضاء اور فیصلہ پر کسی کا اپنے زور سے خواہ وہ شخص کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اثر انداز ہونا ممکن نہیں۔ سو مشرک لوگوں نے جو اپنے خودساختہ معبودوں کے بارے میں اس طرح کے تصورات قائم کر رکھے ہیں کہ وہ اس کے یہاں اثرانداز ہو کر ان کی بخششیں کرا دیں گے وہ سب سراسر فراڈ اور فریب ہے۔ اور اس بنیاد پر جو وہ اپنی فرصت حیات کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں وہ نہایت ہی ہولناک خسارے میں پڑے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top