Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور تمہارے اندر ضرور ایسے لوگوں کی ایک جماعت رہنی چاہیے، جو (دنیا کو) نیکی کی طرف بلائے، بھلائی کا حکم کرے، اور برائی سے روکے، اور یہی لوگ ہیں فلاح (اور حقیقی کامیابی) سے سرفراز ہونے والے3
217 دعوت الی الخیر امت مسلمہ کی ایک اہم اور اجتماعی ذمہ داری : سو ارشاد فرمایا گیا تمہارے اندر ایسے لوگوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے، بھلائی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے۔ تاکہ ان کی طرح دوسری دنیا بھی غفلت و جہالت کی ہلاکتوں سے بچ کر راہ حق و صواب سے سرفراز ہو سکے، اور سب اس دین کی برکتوں سے سرفراز و مالامال ہوسکیں۔ سو دعوت الی الخیر اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر امت مسلمہ کی ایک اہم اور عظیم الشان اجتماعی ذمہ داری اور ایک اہم فریضہ ہے۔ اس لیے اس امت کا لقب ہی امت دعوت قرار پایا ہے۔ بہر کیف اس ارشاد سے امت کو اس اہتمام و انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بِحَبْل اللّٰہ پر قائم رہنے اور لوگوں کو اس پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے اس مقصد کی خاطر ان کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ وہ اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام کے لئے مقرر کریں جو لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، اور منکر سے روکے۔ معروف اور منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات اور منکرات ہیں۔ سو اس کے مطابق بندہ ہمیشہ امر بالمعروف والنہی عن المنکر کے لیے مستعد رہے ۔ وباللہ التوفیق - 218 فلاح پانے والوں کی تعیین و تشخیص : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے یعنی جن کے اندر مذکورہ بالا صفات پائی جاتی ہوں، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں کہ ان خوش نصیبوں نے اپنے مقصد حیات کو بھی سمجھ لیا اور حصول مقصد کیلئے صحیح راہ کو بھی پہچان لیا، اور حیات دنیا کی اس مختصر و محدود فرصت کی قدر و قیمت کو بھی انہوں نے ٹھیک طور سے جان لیا۔ آیت کریمہ میں اسلوب حصر کا ہے کیونکہ مبتدا و خبر دونوں معرفہ ہیں۔ اور بیچ میں ضمیر فصل بھی موجود ہے۔ پس اس سے واضح ہوگیا کہ جو لوگ دین و ایمان کی اس دولت سے محروم ہیں، وہ سراسر ناکام ہیں۔ اگرچہ وہ فضاؤں میں اڑتے، اور ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہوں۔ اور وہ زمین کی تہوں تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں۔ وہ بہرحال ناکام ہیں کہ وہ اپنے مقصد حیات سے غافل، اپنے مصیرمحتوم اور اس کی فکر سے محروم و بیخبر ، اپنے خالق ومالک کے حق بندگی و عبودیت سے لاپرواہ ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس سے اعتصام باللہ کا نتیجہ وثمرہ بیان فرما دیا گیا کہ جو لوگ صحیح طور پر اور پورے صدق و اخلاص سے اس کا اہتمام کریں گے وہی فلاح دارین سے سرفراز ہو سکیں گے ۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق ۔ اور { اولئک ہم المفلحون } کا اسلوب حصر و قصر کا اسلوب ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ فلاح پانے والے یہی خوش نصیب ہیں۔ ان کے سوا فلاح دارین کی دولت اور کسی کو نہیں مل سکے گی۔ ابنائے دنیا خواہ کتنی ہی ترقیوں اور سربلندیوں کے دعوے کریں حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ایمان صادق اور اعمال صالحہ کے بغیر فوز و فلاح کی سعادت سے بہرہ مندی ممکن نہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہ پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top