Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور یقینا اللہ مدد فرما چکا ہے تمہاری (اس سے پہلے) بدر کے مقام پر، جب کہ تم (بالکل) کمزور تھے1 سو ڈرتے (اور بچتے) رہو تم لوگ اللہ (کی ناراضگی و نافرمانی) سے، تاکہ تم (اس کے) شکر گزار بن سکو
257 لفظ " اَذِلَّۃٌ " کا معنیٰ و مفہوم اور ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ : " اَذِلَّۃٌ " ذلیل کی جمع ہے، جس کے اصل معنی کمزور و ناتواں کے ہیں، اور ذلیل کا لفظ اپنے اصل مفہوم اور لغوی معنی کے اعتبار سے اس معنی کیلئے موضوع نہیں جس کے لئے یہ ہمارے محاورے اور معاشرے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اہل بدعت نے حضرت شاہ اسماعیل شہید (رح) کے خلاف ایک موقع پر اس لفظ یعنی " اَذِلَۃ " کے استعمال کی بناء پر جو الزامات کا ایک طوفان بپا کیا ہے، وہ خود ان لوگوں کی اپنی جہالت اور لغت سے بیخبر ی کی دلیل ہے۔ ورنہ ان معترضین سے کوئی پوچھے کہ کیا تم لوگ یہاں پر یعنی اس آیت کریمہ میں استعمال ہونے والے اس لفظ کے وہی معنی مراد لو گے جو کہ ہمارے عام محاورے میں سمجھے جاتے ہیں ؟ اور کیا تم لوگ یہاں بھی وہی اعتراضات دہراؤ گے جو تم نے حضرت شاہ شہید (رح) پر کئے ہیں۔ اور تم خود بتاؤ کہ حضرات صحابہ کرام ۔ رضوان اللہ علیھم اجمعین ۔ سے متعلق اس آیت کریمہ میں وارد اس لفظ کے استعمال کو تم کس معنی و مفہوم میں لو گے ؟ اور پھر بتاؤ کہ حضرت شاہ شہید (رح) نے کیا جرم کیا جو تم لوگوں نے ان کے خلاف اس قدر طوفان بدتمیزی بپا کیا ؟ بہرکیف لفظ " ذلیل " کا اصل اور حقیقی معنی وہ نہیں جو ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اس کا اصل معنی کمزور و ناتواں ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ 258 شکر منعم وسیلہ سرفرازی ۔ وباللہ التوفیق : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ منعم حقیقی کی شکر گزاری وسیلہ سرفرازی ہے۔ اور اس منعم حقیقی اور وہّاب مطلق کی شکر گزاری اس کی نعمتوں سے مزید ازمزید سرفرازی کا ذریعہ اور سبب ہے۔ سو اس طرح اس غنی مطلق ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی شکرگزاری سے خود تم ہی لوگوں کو فائدہ پہنچے گا، کہ شکرگزاری کی صفت ہی وہ صفت ہے جس سے نعمتوں میں برکت آتی، بڑھوتری ہوتی اور ان کی حفاظت ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے { وَاِذْ تَأذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد } (ابراہیم۔ 7) یعنی وہ وقت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب تمہارے رب نے اعلان فرمایا تھا کہ اگر تم لوگ شکر ادا کرو گے تو میں تم کو بڑا کر دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو یاد رکھو کہ پھر میرا عذاب بھی بڑا ہی سخت ہے " ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الّذِی لا اِلٰہُ الاَّہُوَ-
Top