Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 148
فَاٰتٰىهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَ حُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
فَاٰتٰىھُمُ : تو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ ثَوَابَ : انعام الدُّنْيَا : دنیا وَحُسْنَ : اور اچھا ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ : انعام آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
سو اس (اخلاص و استقامت) پر اللہ نے ان کو دنیا کے (اجر و) ثواب سے بھی نوازا، اور آخرت کا عمدہ (اور حقیقی اجرو) ثواب بھی ان کو عطا فرمایا، اور اللہ محبت کرتا (اور پسند فرماتا) ہے ایسے نیکو کاروں کو2
295 اخلاص و استقامت وسیلہ نوازش و سرفرازی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اخلاص واستقامت پر نوازنا شان خداوندی اور اس کا ایک عظیم مظہر و نمونہ ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے اجر وثواب سے نوازا کہ دشمن کے مقابلے میں فتح نصیب ہوئی، ان پر غلبہ حاصل ہوا۔ حکومت ملی۔ عزت و ناموری سے سرفراز ہوئے۔ اور ان کو سچی ناموری کا اعزاز بخشا گیا وغیرہ۔ سو صدق و اخلاص اور استقامت و ثابت قدمی انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و بہرہ ور کرنے والی دولت ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ یہاں پر ذرا یہ بھی دیکھ لیجئے کہ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کیا سکھاتی بتاتی ہیں اور آج کے جاہل مسلمان کا عمل و سلوک کس طرح ہے کہ وہ مشکلات کے ایسے مواقع پر بھی اللہ تعالیٰ کی بجائے اس کی کسی عاجز اور فانی مخلوق کو پکارتا ہے۔ اور ایسے موقع پر بھی وہ " یا علی مدد " اور " یاپیر دستگیر " وغیرہ جیسے شرکیہ نعرے لگاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ نیز اس ارشاد یعنی { وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ } الخ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب ان اللہ والوں کو آزمائش اور مصیبتیں پیش آئیں تو انہوں نے آج کے کمزور مسلمانوں اور منافقوں کی طرح شکوک و شبہات میں پڑنے اور ایسی کسی مشکل اور مصیبت میں شکوہ و شکایت کرنے اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اپنی کمزوری اور تجاویز پر محمول کیا۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگی جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں فتح و نصرت سے نوازا اور حکومت و اقتدار سے سرفراز فرمایا اور آخرت میں ان کو حسن ثواب اور اعلیٰ درجہ و مقام سے بہرہ مند فرمایا۔ سو ارشاد فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو مرتبہ احسان پر فائز ہیں اور اللہ ایسے نیکو کاروں سے محبت فرماتا ہے ۔ وبا للّٰہ التوفق لِمَا یُحِبُّ ویُرِید ۔ سو استقلال اور احسان مسلمان کی دو عظیم الشان صفتیں ہیں ۔ اللہ نصیب فرمائے اور بدرجہ تمام و کمال نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 296 مخلصین و صابرین کے لیے انعام آخرت کا ذکر وبیان : سو اس سے مخلصین و صابرین کے لیے آخرت کے حسن ثواب کا مژدہ جانفرا سنا دیا گیا کہ وہاں ان کو جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہوئی۔ اور وہاں ان کو وہ کچھ ملا جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا گزر ہی ہوا۔ اور وہ بھی ہمیشہ کیلئے اور ابدی انعام کے طور پر۔ اور جہاں ان کو اپنے رب کی رضا و خوشنودی اور اس کے قرب کی وہ نعمت عظمیٰ نصیب ہوگی، جو سب نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ اور یہ نعمتیں ایسی عظیم الشان نعمتیں ہیں کہ دنیا کی نعمتوں کی ان کے سامنے کوئی حقیقت اور حیثیت ہی نہیں۔ اسی لئے یہاں { حُسْنَ ثَوَاب الاٰخِرَۃَ فرمایا گیا ہے۔ سو آخرت کا اجر وثواب دنیا کے اجر وثواب کی طرح نہیں کہ دنیا کا اجر وثواب اول تو ناقص اور آخرت کے اس اجر وثواب کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر اس میں بھی طرح طرح کی تکلیفوں اور مشکلات کے مختلف ایسے شوائب شامل ہوتے ہیں جو اس کو مکدر اور اس کا مزہ کر کرا کردیتے ہیں۔ جبکہ آخرت کا اجر وثواب ایسے تمام شوائب سے خالی اور پاک و صاف ہوتا ہے۔ اور وہ ہوگا بھی ایسی کامل شان کا کہ یہاں اس کی کوئی نظیر و مثال ممکن ہی نہیں ہوسکتی جیسا کہ حضرت نبی معصوم ﷺ نے اس کی اس طرح توضیح و تصریح فرمائی۔ اور آپ ﷺ نے اس مضمون کی تائید و توثیق کیلئے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی { فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃ اَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } (السجدہ۔ 17) سو مومن صادق کیلئے اس کے صدق و اخلاص کے صلے میں اس دنیا میں بھی اچھائی اور بھلائی ہے اور آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی میں بھی۔ اسی لیے اس کو دنیا و آخرت کی خیر اور بھلائی کی جامع یہ دعا تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے { رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّار } (البقرۃ : 20 1) ۔ سو اخلاص و استقامت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 297 نیکوکاروں کیلئے محبت خداوندی کا مژدہ جانفرا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا اور پسند فرماتا ہے نیکوکاروں کو جن کی نیتیں اور ارادے بھی نیک اور صحیح ہوتے ہیں اور ان کے اعمال بھی دین حق کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق اور صالح و مستقیم ہوتے ہیں ۔ اللہ ہمیں انہی میں سے بنائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ امام رازی کی دقیقہ سنج طبیعت نے یہاں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ان حضرات نے جب حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے حضور اپنی کمزوری اور کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ سے اپنی بخشش کی دعاء مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو احسان کی سند سے نواز دیا۔ اور ان کو محسن قرار دے دیا۔ گویا کہ اللہ پاک نے ان کی دعاء کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جب تم نے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا اقرار و اعتراف کرلیا تو میں نے تم کو احسان کے وصف سے سرفراز کردیا اور تم کو اپنی محبت کے شرف سے نواز دیا۔ سو اس سے یہ واضح فرما دیا گیا کہ اللہ پاک کے یہاں شرف باریابی سے مشرف ہونے کیلئے یہی راستہ ہے کہ انسان اس کے حضور اپنی عاجزی و درماندگی کا اظہار کرے اور صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرے ۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَ یُرِیْدُ وَعَلٰی مَا یُحِبُّ وَیُرِیْد ۔ سو احسان کی صفت ایک عظیم الشان صفت ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
Top