Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 161
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ١ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھا۔ ہے لِنَبِيٍّ : نبی کے لیے اَنْ يَّغُلَّ : کہ چھپائے وَمَنْ : اور جو يَّغْلُلْ : چھپائے گا يَاْتِ : لائے گا بِمَا غَلَّ : جو اس نے چھپایا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ثُمَّ : پھر تُوَفّٰي : پورا پائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور کسی نبی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ (کسی طرح کی) کوئی خیانت کرے، اور جس کسی نے کوئی خیا نت کی تو اسے قیامت کے روز اپنی خیانت (کردہ شئی) کو خود (اپنے سر پر اٹھا کر) لانا ہوگا، پھر ہر کسی کو پورا بدلہ دیا جائے گا اس (کی زندگی بھر) کے کئے کرائے کا، اور ان پر (کسی طرح کا) کوئی ظلم نہیں ہوگا3
342 خیانت کرنا کسی نبی کی شان نہیں ہوسکتا : کہ نبوت اور خیانت دونوں یکجا نہیں ہوسکتیں کہ نبوت کا شرف سب سے بڑا اور سب سے عظیم الشان شرف ہے جس سے اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اپنے کسی بندے کو اپنے کرم خاص سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے۔ وہاں خیانت جیسی گھٹیا خصلت راہ پا ہی نہیں سکتی۔ ترمذی وغیرہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر ایک چادر کہیں گم ہوگئی تو بعض لوگوں نے کہا کہ شاید اللہ کے رسول نے لے لی ہو تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (ترمذی کتاب التفسیر) ۔ نیز اس ارشاد ربانی کے عموم میں یہ بات بھی داخل ہے بلکہ اس کے الفاظ و کلمات کریمہ کے ظاہر اور تبادر کے زیادہ قریب ہے کہ نبی اپنی امت سے کبھی خیانت اور بدعہدی نہیں کرتا، بلکہ وہ ہمیشہ ان کی خیر خواہی ہی کرتا اور خداوند قدوس کے احکام جوں کے توں اور بلا کم وکاست ان تک پہنچاتا ہے۔ یہ ارشاد دراصل منافقوں کے اس پروپیگنڈے کے جواب میں اور اس کی تردید کیلئے فرمایا گیا جو وہ غزؤہ احد کی شکست کے بعد لوگوں میں پھیلا رہے تھے کہ ان صاحب نے ہمارے اعتماد کا ناجائزہ فائدہ اٹھایا۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکال کر یہاں احد کے میدان میں اس طرح مروا دیا اور ہمیں دھوکہ دیا وغیرہ۔ تو اس پر ان منافقوں کے اس پروپیگنڈے کے جواب میں اور اس کی تردید میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ پیغمبر کی یہ شان نہیں ہوسکتی کہ وہ خیانت کرے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو جوں کا توں پہنچاتا ہے۔ سو یہی آیت کریمہ کا مفہوم و مطلب اور اس کا ظاہر اور متبادر مفہوم ہے۔ اور ابن جریر وغیرہ جیسے بعض اکابرین اہل علم نے اسی کو اپنایا ہے۔ اور اس صورت میں اوپر والا مفہوم جو کہ ترمذی کی روایت کے حوالے سے گزرا ہے وہ محض اس کی ایک مثال اور مظہر کی حیثیت رکھتا ہے، جو کہ اس کے عموم میں داخل ہے نہ کہ اصل اور حقیقی مفہوم ۔ والعلم عنداللہ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کی یہ شان نہیں ہوسکتی کہ وہ خیانت کرے کہ وہ صدق و اخلاص اور خلق عظیم کے اعلیٰ درجے پر ہوتے ہیں ۔ (علیہ السلام) - 343 خیا نت کے ہولناک انجام کا ذکر وبیان : سو خیانت کرنے والے کو قیامت کے روز اپنی خیانت کردہ شے کو اٹھا کر حاضر ہونا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ صحیحین یعنی صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی قیامت کے روز اس حالت میں آئے کہ اس نے ایک اونٹ کو اپنی گردن پر اٹھا رکھا ہو۔ پھر وہ مجھ سے کہے کہ میری مدد کرو، میری فریاد سنو، تو میں اسے جواب دوں کہ نہیں میں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتا، جاؤ میں نے تو تمہیں پہلے ہی بتادیا تھا اور اس انجام سے خبردار کردیا تھا۔ الی آخر الحدیث ( بخاری، کتاب الجہاد، مسلم، کتاب الامارۃ) ۔ سو جب خیانت کا جرم ایسا ہولناک جرم ہے تو پھر پیغمبر جیسی پاکیزہ ہستی کسی خیانت اور بددیانتی کا ارتکاب کیسے کرسکتی ہے۔ سو پیغمبر خیانت اور بددیانتی کے ہر شائبہ سے پاک اور صاف ہے ۔ اللہ ہمیں بھی خیانت و بددیانتی سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 344 روز جزاء میں کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہاں پر ہر کسی کو اس کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ وبدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر کوئی ظلم نہیں ہوگا کہ کسی کا کوئی عمل چھوٹ جائے یا کسی کو اس کے کئے سے زیادہ کی سزا دی جائے۔ سو ایسی کوئی بات اس روز وہاں نہیں ہوگی بلکہ وہاں پورا پورا عدل و انصاف ہوگا۔ یہاں بھی اسی حقیقت کو آشکار فرمایا گیا ہے جو قرآن حکیم میں دوسرے بھی کئی مقامات پر بیان ہوئی کہ انسان کو اپنے کئے کرائے کا پورا بدلہ آخرت ہی میں ملے گا کہ دنیا میں پورا بدلہ مل سکتا ہی نہیں۔ اس لئے کہ دنیا کے ظرف محدود میں اس کی گنجائش ہی نہیں۔ اور دنیا میں اس کا کوئی موقع بھی نہیں کہ دنیا " دارالعمل " ہے " دارالجزاء " نہیں۔ " دارالجزائ " آخرت کا وہ جہاں ہی ہے جو کہ دارالجزاء بھی ہے اور اس کی وسعتیں بھی لامحدود ہیں۔ اور وہیں انسان کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ اور بدلہ مل سکے گا۔ نیکی کا جنت کی سدا بہار نعمتوں کی شکل میں ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ اور برائی کا دوزخ کے طرح طرح کی عذابوں کی صورت میں ۔ والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ بہرکیف روز جزا میں ہر کسی کو اپنے کیے کرائے کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ کسی سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔
Top