Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 16
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَآ : بیشک ہم اٰمَنَّا : ایمان لائے فَاغْفِرْ : سو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : دوزخ
(یہ خوش نصیب لوگ وہ ہیں) جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم (صدق دل سے) ایمان لائے، پس تو بخش دے ہمارے گناہوں کو، اور بچا دے ہمیں دوزخ کے عذاب سے،1
35 ایمان کے وسیلے سے دعا : سو ایسے خوش نصیب لوگ اپنے رب کے حضور دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے۔ پس تو بخشش فرما دے ہمارے گناہوں کی اور ہمیں بچا دے دوزخ کی آگ سے۔ سو اس میں ایمان کے وسیلے اور صدقے میں عذاب دوزخ سے بچنے کی دعاء و درخواست کی تعلیم و تلقین ہے۔ یعنی ایمان و یقین کی اسی دولت کے طفیل جو تو نے ہم کو بخشی ہے اور جس سے تو نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں نوازا ہے، اسی کے طفیل ہمارا کام بنا دے کہ جو لغزشیں اور خطائیں ہم سے سرزد ہوگئیں، یا آئندہ ہونگی ان سب کی بخشش فرما کر ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، اور دوزخ کے عذاب سے بچانے کی درخواست کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا کہ جس کو اس عذاب سے بچا لیا گیا وہ یقینا کامیاب ہوگیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی چناچہ ارشاد ہوتا ہے { فمَنْ زُحْزِحَ عَن النَّار وَاُدْخِل الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ، وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ اَلغُرُوْرِ } (آل عمران۔ 185) یعنی " جس کو دوزخ سے بچا کر جنت سے سرفراز فرما دیا گیا وہ یقینا کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top