Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 171
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ٤ۚۛ۠   ۧ
يَسْتَبْشِرُوْنَ : وہ خوشیاں منا رہے ہیں بِنِعْمَةٍ : نعمت سے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَا يُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا اَجْرَ : اجر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کے عظیم الشان انعام اور مہربانی پر، (جس سے وہ سرفراز ہوچکے ہیں) اور اس بناء پر کہ بیشک اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ ) ضائع نہیں فرماتا اجر ایمانداروں کا2
366 شہداء کی خوشی و مسرت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کے انعام اور اس کے فضل سے جس سے ان کو نوازا گیا۔ انعام وہ جو ان کو اپنے عمل کی جزاء میں اور اپنے کئے کرائے کے بدلے کے طور پر ملے گا اور فضل و مہربانی وہ جس سے ان کو اس پر بطور مزید نوازا جائے گا۔ سو یہ اوپر والی بات کی مزید توثیق اور توضیح ہوگئی کہ شہداء کیلئے نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام اور اس کے فضل و احسان اور مہربانی و عنایت سے سرشار ہوجائے گا اس کے لیے پھر کسی خوف اور غم کا کیا سوال ؟ سو ناداں لوگ تو ان پر افسوس کرتے ہیں کہ وہ جنگ میں مارے گئے مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے خاص انعام و اکرام اور اس کے فضل و کرم سے خوش ہو رہے ہیں اور دمبدم ان کو طرح طرح کی خوشیاں ملتی ہیں اور وہ اور اپنے ان اخلاف و اولاد سے متعلق جو ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان سے ملنے کے آرزو مند ہیں اگرچہ وہ ابھی تک ملے نہیں ان سے متعلق بھی ان کو یہ خوشخبریاں مل رہی ہیں وہ بھی عنقریب ہی ان سے ملیں گے۔ سو اس طرح وہ خوشخبری پر خوشخبری سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں۔ 367 اہل ایمان کے لیے ایک خوشخبری : سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ اللہ ایمانداروں کا اجر کبھی بھی ضائع نہیں فرماتا بلکہ وہ اس کو ان کے لیے محفوظ رکھتا اور ان کو اس کے اجر وثواب سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے کہ اس کی شان یہ ہے کہ لوگ تو اپنے عمل کو بھول جاتے ہیں مگر وہ اس کو محفوظ رکھتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ { احصاہ اللہ ونسوہ } ۔ (المجادلۃ :6) یعنی انہوں نے تو اس کو بھلا دیا مگر اللہ نے اس کو محفوظ رکھا۔ اور جب وہ عام مومنین کو بھی ان کے اجرو ثواب سے محروم نہیں کرتا، بلکہ ان کے وہم و گمان سے بھی بڑھ کر ان کو اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے نوازتا ہے تو پھر ان شہداء کو وہ کیا کچھ نہیں دے گا جنہوں نے اس کی راہ میں اور اس کی رضاء کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیئے۔ اور یہاں جہاد کی بجائے ان کے ایمان کا ذکر فرمایا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اصل اور اساس دارین کی فلاح و نجاح کی ایمان و یقین کی دولت ہی ہے کہ اسی سے ہر نیکی کی قدر و قیمت بنتی ہے۔ ورنہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل عمل صالح بن سکتا ہے اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت ہوسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان میں مزید از مزید قوت نصیب فرمائے ۔ آمین۔
Top