Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
جن سے لوگوں نے (ان کو خوف زدہ کرنے کے لئے) کہا کہ بیشک (تمہارے دشمن) لوگوں نے تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع کر رکھی ہیں، پس تم ان سے ڈرو (اور ان کے مقابلے سے بچو) تو اس سے (ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی بجائے) ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا، اور انہوں نے (فوراً اور قوت ایمانی سے لبریز انداز میں) کہا کہ کافی ہے ہمیں اللہ اور وہی ہے سب سے (بڑا اور سب سے) اچھا کارساز
369 غزوہ بدر صغریٰ اور اس کے حال و مآل کا ذکر : سو یہ اشارہ ہے غزوہ بدرصغریٰ کی طرف۔ ابوسفیان نے احد سے لوٹتے وقت آنحضرت ﷺ سے چیلنج کے طور پر کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اگلے سال بدر کے مقام پر ہمارا پھر مقابلہ ہو۔ اس سے مقصد اس کا یہ تھا کہ ہم احد کی طرح وہاں بھی مسلمانوں کے بڑے بڑے سرداروں کو مار کر بدر میں قتل ہونے والے اپنے سرداروں کا بدلہ لینگے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے اس چیلنج کو قبول فرما لیا۔ سال پورا ہونے پر ابوسفیان دوہزار کا لشکر لے کر بدر کی طرف چل پڑا جس میں دوسرے ساز و سامان کے علاوہ پچاس گھوڑے بھی اس کے ہمراہ تھے۔ مگر " مرالظہران " کے راستے جب وہ " مجنہ " کے مقام پر پہنچا، تو قدرت کی طرف سے اس پر ایسا رعب چھا گیا کہ اس نے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ مگر چاہا کہ کوئی ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے کہ اس فرار کا الزام بھی اس کے بجائے مسلمانوں پر آئے۔ چناچہ اس کو اس موقع پر نعیم بن مسعود الثقفی مل گیا جو کہ عمرہ کر کے مدینہ واپس لوٹ رہا تھا۔ تو ابوسفیان نے اس سے کہا کہ دیکھو ہم نے محمد اور ان کے ساتھیوں سے اس موسم میں بدر کے مقام پر مقابلے کا طے کیا تھا مگر اب چونکہ زمانہ قحط سالی کا ہے اس لئے ایسے میں ہمارا وہاں جانا مناسب نہیں۔ لہذا تم جا کر مدینے میں محمد اور ان کے ساتھیوں کو ایسا ڈراؤ اور خوفزدہ کرو کہ وہ بدر نہ آسکیں تاکہ وعدہ خلافی کا یہ الزام انہی پر آئے۔ اور میں اس کے بدلے تمہیں دس اونٹ دوں گا، جو میں ابھی سے سہیل بن عمرو کے پاس رکھ دیتا ہوں۔ چناچہ اس قول وقرار کے مطابق نعیم بن مسعود نے مدینے میں جا کر اس کے حق میں پروپیگنڈہ کرنا اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا شروع کردیا اور کہا کہ دیکھو ان لوگوں نے تمہارے خلاف ایسا بڑا اور اتنا خوفناک لشکر جمع کر رکھا ہے جس کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں۔ تم جانتے ہو کہ احد میں جہاں انہوں نے اتنی دور سے آ کر تم پر تمہارے گھروں کے اندر حملہ کیا تھا تو تم پر کیا بیتی تھی۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی نہ کوئی فرد ہلاک یا زخمی نہ ہوا ہو۔ اور جو بچ سکے وہ بھی وہ ہیں جنہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ تو اب اگر تم لوگ اتنی دور جا کر ان کے اتنے بڑے لشکر سے ٹکرائے تو تم میں سے کوئی بھی لوٹ کر واپس نہیں آسکے گا۔ اس شخص کی ان باتوں کا ان لوگوں میں سے کچھ پر تو طبعی طور پر اثر ہوا مگر آنحضرت ﷺ نے ہر قیمت پر نکلنے کا قصد و ارادہ فرما لیا اور قسم کھا کر فرمایا کہ اگر اور کوئی نہ بھی گیا تو میں اکیلا ہی جاؤں گا " وََالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَاَخْرُجَنَّ وَلَوْ وَحْدِیْ "۔ اس پر صحابہ کرام کی ایک جمعیت بھی تیار ہوگئی جو کہ ستر اشخاص کی تعداد میں تھی۔ ان حضرات میں نعیم بن مسعود کی اس تخویف سے خوفزدگی کی بجائے ایمانی قوت ہی میں اضافہ ہوا اور وہ سب آنحضرت ﷺ کی معیت میں اللہ پر یقین و اعتماد کرتے ہوئے اور { حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ } کہتے ہوئے بدر کی طرف روانہ ہوگئے، جہاں پر پہنچنے کے بعد آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے ان جاں نثار ساتھیوں نے آٹھ دن تک قیام فرمایا۔ ابوسفیان اور اس کا لشکر جو قدرتی رعب کی بناء پر ہمت ہار چکے تھے، انہوں نے نہ آنا تھا نہ آئے۔ اپنے بدر کے اس قیام کے دوران ان حضرات نے وہاں تجارت بھی کی اور خوب خوب نفع بھی کمایا۔ اور یہ ایک درھم کے دو دو درھم کما کر سلامتی، غنیمت اور اجر کے ساتھ واپس لوٹے۔ آیت کریمہ میں اسی کا ذکر وبیان ہے۔ اس واقعہ کو بدر صغریٰ کہا جاتا ہے جبکہ اس سے پہلے ہونے والے بدر کے غزوہ کو غزوہ بدر کبریٰ کہا جاتا ہے۔ 370 صدق ایمان کا نتیجہ و تقاضا اللہ پر پکا اور پختہ یقین و اعتماد : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ سچے مومنین کی شان اللہ تعالیٰ کی قدرت و کارسازی پر پکا اور پختہ ایمان رکھنا ہے۔ سو یہ تھی شان سچے مسلمانوں کی۔ اور یہ ہے نمونہ ایمان صادق اور یقین کامل کا کہ بھروسہ و اعتماد صرف اور صرف اللہ پر اور یقین و وثوق اسی وحدہ لاشریک کی کارسازی پر ہے۔ کہ حاجت روا و مشکل کشا اور کارساز و کارفرما وہی وحدہ لاشریک ہے ۔ جل و علاشانہ ۔ غور کیجئے کہ حضرات صحابہ کرام وہ برگزیدہ و پاکیزہ ہستیاں ہیں کہ کتاب حکیم میں اللہ رب العلمین کی طرف سے ان کو صاف وصریح الفاظ میں ۔ ؓ و رضواعنہ ۔ کا عظیم الشان تزکیہ اور بےمثل سرٹیفیکیٹ مل چکا ہے۔ حضرت امام الانبیائ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علیھم اجمعین ۔ خود بنفس نفیس ان کے اندر موجود ہیں مگر اس سب کے باوجود ان حضرات کا نہ اپنے بارے میں اس طرح کا کوئی خیال و گھمنڈ اور نہ نبی اکرم ﷺ کی حاجت روائی و مشکل کشائی کا کوئی گمان و اعتقاد۔ بھروسہ و اعتماد اور اعلان و اقرار ہے تو صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بزرگی و بڑائی، حاجت روائی و مشکل کشائی اور کارسازی و کارفرمائی کا ہے۔ اسکے مقابلے میں اب ذرا اپنے دور کے نام کے جاہل مسلمان کا حال بھی دیکھئے کہ وہ اس کے برعکس طرح طرح کی شرکیات میں مبتلا ہے۔ اللہ پاک کے سوا اور طرح طرح کے حاجت روا و مشکل کشا اس نے ازخود گھڑ رکھے ہیں۔ اللہ سے مدد مانگنے اور " یا اللہ مدد " کہنے کی بجائے وہ طرح طرح کے دوسرے شرکیہ کلمات کے سہارے ڈھونڈتا ہے۔ وہ " یا رسول اللہ اغثنی "، " یا علی مدد "، " یا غوث دستگیر "، " یا خواجہ اجمیری پار لگا کشتی میری "، " یا بہاء الحق بیڑا دھک " وغیرہ وغیرہ جیسے شرکیہ راگ الاپتا ہے۔ اور پھر بھی کہتا ہے میں مشرک نہیں موحد ہوں۔ تو پھر شرک اور کس بلا کا نام ہے اور مشرک اور کون ہوتا ہے ؟ اور بدعتی ملاں اور پیر ہیں کہ وہ اپنے جبہ و دستار کے رعب دار لبادے میں ایسے سادہ لوح مسلمانوں کے دل و دماغ میں طرح طرح سے ان شرکیات کو ٹھونستے اور پکا کرتے جاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو پھر بگڑی بنے تو کیسے بنے۔ حالات درست ہوں تو کس طرح۔ ابھی چند ہی روز پہلے کی بات ہے کہ کراچی کے حالیہ فسادات کے بارے میں کراچی کے ہی ایک بڑے پگڑ والے بدعتی اور مشرک ملاں نے اخبارات میں یہ بیان دیا اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ حالات کی اصلاح کیلئے اللہ اور اس کے رسول سے مدد مانگیں۔ یعنی یہ دونوں ہستیاں گویا ایک ہی برابر ہیں۔ اس طرح جس نبی امی ﷺ کی بعثت و تشریف آوری ہی عقیدہ توحید کی تعلیم و تبلیغ اور تلقین و ارشاد کے لئے ہوئی تھی اور جس نے امت کو صاف اور صریح طور پر حکم دیا تھا کہ جب تمہیں سوال کرنا ہو تو اللہ ہی سے کرو اور جب مدد مانگنی ہو اللہ ہی سے مانگو۔ چناچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " اِذَا سَاَلْتَ فَاسْاَل اللّٰہَ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ ۔ اسی کے نام نامی اور اسم گرامی سے شرک شروع کردیا گیا { فَاِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ } کہاں ہے روز مکافات اے خدائے دیر گیر ؟ حالانکہ پیغمبر کا اپنا اسوہ یہ ہے کہ اس شخص نے جب آپ ﷺ کے سامنے اور آپ ﷺ کو خطاب کر کے کہا " مَاشَائَ اللّٰہُ ومَا شِئْتَ " جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں " تو اس پر غصے سے آپ ﷺ کا چہرہ انور سرخ ہوگیا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا " اَ جَعَلْتَنِیْ لِلّٰہ نِدًَّا ؟ " یعنی " کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا لیا " (الادب المفرد للامام البخاری وغیرہ) ۔ پھر آپ ﷺ نے اس شخص کو ہدایت فرمائی کہ یوں کہا کرو " ماشاء اللہ وحدہٗ " یعنی " جو صرف اللہ چاہے " کہ اس کی مشیت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ سو دیکھیے اور غور کیجئے کہ کہاں یہ تعلیمات نبویہ اور کہاں دور حاضر کا جاہل مسلمان ؟ جو مذکورہ بالا قسم کی شرکیات کا ارتکاب علی الاعلان کرتا ہے ۔ فالی اللّٰہ المشتکٰی و ہوالمستعان -
Top