Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 191
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِھِمْ : اپنی کروٹیں وَيَتَفَكَّرُوْنَ : اور وہ غور کرتے ہیں فِيْ خَلْقِ : پیدائش میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین رَبَّنَا : اے ہمارے رب مَا : نہیں خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا هٰذَا : یہ بَاطِلًا : بےفائدہ سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے فَقِنَا : تو ہمیں بچا لے عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے، بیٹھے، اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے، (ہر حال میں) اور وہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں، آسمانوں اور زمین میں، (اور پھر وہ بےساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب، تو نے یہ (سب کچھ) بےکار (اور بےمقصد) پیدا نہیں فرمایا، تو پاک ہے (ہر نقص و عیب سے اور اس سے کہ تو یہ سب کچھ بےمقصد پیدا فرمائے) پس تو ہمیں (ہمارے اس ایمان و عقیدہ کے صلہ و نتیجہ میں اور اپنے فضل و کرم کی بناء پر) بچا لے دوزخ کے عذاب سے
407 ذکر و فکر دونوں کی ضرورت کا اظہار وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ گوہر مقصود سے سرفرازی کیلئے ذکر و فکر دونوں کی ضرورت ہے۔ سو اس سے ایک اور عظیم الشان حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ گوہر مقصود سے سرفراز و بہرہ ور ہونے کیلئے ذکر و فکر دونوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ یعنی اپنے آس پاس اور گرد و پیش کی اس عظیم الشان کائنات کے خالق ومالک کی یاددلشاد اور اس کی عظمت کا استحضار بھی دل میں موجود ہو۔ اور اس کی اس حکمتوں بھری کائنات میں غور و فکر بھی۔ تو اس سے ایمان و یقین میں جلا پیدا ہوتی اور قوت آتی ہے۔ مگر افسوس کہ دنیا کا حال اس سے یکسر مختلف ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ تو ان لوگوں کا ہے جو اس اتھاہ کائنات میں غور و فکر کرنے اور اس کے خزائن ودفائن کے دریافت کرنے اور ان سے طرح طرح کے مادی فائدے اٹھانے میں تو مصروف ہیں مگر وہ اس قادر مطلق اور واہب کل کی قدرت کاملہ اور عنایت شاملہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جس نے یہ سب کچھ اس پر حکمت طریقے سے اور اس وسیع پیمانے پر ان کیلئے پیدا فرما کر اس طرح اس وسیع کائنات میں محفوظ فرما دیا ہے جیسا کہ اس نے اپنے اس کلام حق ترجمان میں دوسرے مقام پر اس طرح خود بیان فرمایا ہے { وَجَعَلَ فِیْہا رَوَاسِی مِنْ فَوْقِہَا وَبارَکَ فِیْہَا قَدَّرَ فِیْہا اَقْوَاتَہَا فِیْ اَرْبَعَۃ اَیَّام } الآیۃ (حٰمٓ السجدۃ : 10) جس سے یہ ناشکرے لوگ نسل درنسل اور پشت ہا پشت مستفید ہوتے جا رہے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کفران نعمت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک کی ان بےانتہاء نعمتوں سے طرح طرح سے اور لگاتار فائدہ تو اٹھاتا جائے مگر وہ اسی سے غافل اور اس کا نافرمان ہو جس نے اس کو ان سے نوازا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کے ذکر سے سرشاری کے دعویدار تو بنتے ہیں اور بہت سے اس کے ذکرپاک سے رطب اللسان رہتے بھی ہیں، مگر ایسے حضرات غورو فکر سے کام لینے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ اور اس پر مزید یہ کہ ان میں بہت سے عناصر ایسے بھی ہوتے ہیں جو ذکر اذکار کے نام سے طرح طرح کی بدعتیں ایجاد کرتے اور اس ضمن میں ایسی ایسی شرکیات کے ارتکاب تک جا پہنچتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں وہ راہ راست ہی سے بھی بھٹک جاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس امن و سلامتی اور حق و ہدایت کی راہ ایک اور صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ذکر بھی ہو اور فکر بھی۔ اور یہ سب کچھ قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں اور ان ہی کی مقرر کردہ حدود اور دائرہ کے اندر ہو ۔ فَاِیَّاکَ نَسْأَلُ اللّٰہُمَّ التَّوْفِیْقَ لذِالِکَ وَالسِّدَادَ وَالثِّبَات علیہ ۔ بہرکیف ذکر و فکر دونوں سے سرفرازی مطلوب و مقصود ہے، ورنہ ذکر کے بغیر فکر محض مادہ پرستی، تن و توش کی خدمت، پیٹ کی پوجا اور اہواء و اَغراض نفس کی بندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ اور فکر کے بغیر محض ذکر ایک ایسا زبانی جمع خرچ بن جاتا ہے جس سے قلب و روح کی تطہیر و بالیدگی کا اصل مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔ سو ذکر و فکر دونوں مطلوب ہیں اور ان دونوں کی یکجا موجودگی ہی سے گوہر مقصود حاصل ہوتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ-408 غور و فکر کا محل، مخلوق ہے نہ کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ -: سو یہ ایک اور اہم نکتہ ہے جس کو یہاں واضح فرما دیا گیا۔ وہ یہ کہ غور و فکر کا محل مخلوق ہے نہ کہ خالق۔ کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی ذات اقدس و اعلیٰ انسانی عقل و فکر اور دائرہ مخلوق سے وراء الوراء ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کہ انسان خود بھی مخلوق و محدود ہے اور اس کی عقل و فکر بھی مخلوق و محدود۔ اس لئے اس کی محض اپنی عقل کی پرواز کی بناء پر وہاں تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ پس صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کی اس مخلوق میں غور و فکر سے کام لیکر اس خالق بےہمتا کی عظمت کے احساس و ادراک سے اپنے دل و دماغ کی دنیا کی آبادی کا سامان کرے۔ اور پھر وحی کے نور کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کرے۔ اسی لئے حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بارے میں مت سوچو بلکہ اس کی مخلوق کے بارے میں سوچو " لا تَفَکِّرُوْا فِی اللّٰہ وَلٰکِِِنْ تُفَکِّرُوْا فِیْمَا خَلَقَ " ( اخرجہ ابن ابی الدنیامن حدیث عبداللہ بن سلام، محاسن التاویل ) ۔ اور انسان جب اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنے لگے تو ا سے قدم قدم پر اس وحدہ لاشریک کی عظمت و وحدانیت کے دلائل و شواہد ملیں گے ۔ حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی ۔ (رح) ۔ فرماتے ہیں کہ میں جب اپنے گھر سے نکلتا ہوں تو جس چیز پر بھی میری نظر پڑتی ہے اس میں مجھے ایک عظیم الشان نعمت بھی نظر آتی ہے اور ایک بڑا سامان عبرت بھی۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ ۔ اللہ قلب و نظر کی ایسی ہی روشنی سے سرفراز و مالامال فرمائے ۔ آمین۔ 409 کائنات کی تخلیق عبث و بیکار نہیں ہوسکتی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کی تخلیق بیکار نہیں ہوسکتی : کہ جب ایک عام اور معمولی چیز بھی کوئی بیکار و بےمقصد نہیں بناتا تو پھر کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ حکمتوں بھرا کارخانہ قدرت بیکار و بےمقصد ہو ؟ سو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی یہ ساری مخلوق بےمقصد نہیں ہوسکتی بلکہ یہ بڑی ہی بامقصد اور پر حکمت کائنات ہے۔ اور اس کو بےمقصد اور بیکار سمجھنا کافروں اور منکروں ہی کا کام ہوسکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا { وَمَا خَلَقْنا السَّمَائَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلاً ، ذَالِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِ } (صٓ: 28) ۔ اس کائنات میں غور و فکر کا سب سے بڑا اور اصل اور حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان اس میں غور و فکر سے کام لے کر اپنے اس خالق ومالک کی مغفرت حاصل کرے جس نے یہ سب کچھ اپنے کمال قدرت و حکمت سے پیدا فرمایا اور انسان کو اس سے طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہونے کا موقع بخشا۔ اور اس کے نتیجے میں اس کا دوسرا مقصد یہ قرار پاتا ہے کہ انسان اس کی ایک ایک چیز سے مستفید ہوتے وقت دل و جان سے اپنے اس خالق ومالک کا شکر بجا لائے اور اس طرح ہر ہر قدم پر اپنے دل و دماغ کو نور معرفت سے منور کرے اور اپنے ذخیرہ آخرت میں اضافہ چاہے۔ اور یہیں سے اس کا تیسرا بڑا مقصد واضح ہوجاتا ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں انسان سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھ ہو کہ اس نے اس کا کیا حق ادا کیا تاکہ شکر گزاروں کو ان کی شکر گزاری کا پورا پورا صلہ وبد لہ ملے اور ناشکروں اور منکروں کو ان کے کفر وانکار کی قرار واقعی سزا ملے۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ ورنہ اس حکمتوں بھری کائنات کا وجود بیکار ہو کر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا شکر اللہ کی ہدایت اور اس کے رسولوں کی تعلیمات کے بغیر ممکن نہیں اور جو رب خاتم الانبیاء والرسل حضرت محمد ﷺ کی رسالت کاملہ کی صورت میں قیامت تک کے لئے موجود ہے۔ سو زمین و آسمان کی اس عظیم الشان کائنات میں صحیح طور پر غور و فکر کرنے سے اللہ کی وحدانیت ویکتائی اس کے رسولوں کی صداقت و حقانیت اور آخرت و قیامت کی ضرورت سب سے متعلق دلائل ملتے ہیں اور توحید و رسالت اور آخرت کے یہی تین بنیادی اصول دین کی اصل اساس و بنیاد ہیں۔ اور ان تینوں کی دعوت ہر آسمانی دین و شریعت میں ہمیشہ سے دی گئی ۔ وَباللّٰہ التَّوْفِیْق وَہُوَ الْہَادِیْ اِلَی سَوَائ السَّبِیْلِ ۔ سو کائنات کی یہ کھلی کتاب عظیم الشان دلائل قدرت پر مشتمل ہے۔ مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ انسان اس میں غور وفکر سے کام نہیں لیتا۔ وہ حیوانوں کی طرح اس کی ان گنت اور بےحد و حساب نعمتوں سے فائدے تو اٹھاتا ہے اور دن رات اور لگاتار اٹھاتا ہے مگر اس طرح کبھی توجہ نہیں کرتا کہ یہ سب کچھ کس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے ؟ اور اس کا ہم پر کیا حق بنتا ہے ؟ اور اس کا نتیجہ وانجام کیا ہونے والا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ سو وہ ادھر توجہ کرتا ہی نہیں الا ماشاء اللہ -
Top