Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
بیشک جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کا اور وہ قتل کرتے ہیں اس کے پیغمبروں کو بغیر کسی حق کے،1 اور وہ قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو (دنیا کو) تعلیم دیتے ہیں (حق و) انصاف کی، تو ان کو خوشخبری سنا دو ایک بڑے دردناک عذاب کی۔2
45 نبیوں کا قتل بغیر کسی حق کے۔ والعیاذ باللہ : یعنی " نکرہ تحت النفی " عموم کیلئے مفید ہے۔ اور حضرات انبیائے کرام کے قتل کے حق ہونے کی کوئی صورت تو ممکن ہی نہیں کہ وہ پاکیزہ ہستیاں ہر طرح کے جرم اور ہر قسم کے عیب و قصور سے پاک و بری ہوتی ہیں۔ سو " بغیر حق " کے اندر پائے جانے والے اسی مفہوم کو ہم نے اپنے ترجمہ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ والحمدللہ ۔ پس عام طور پر اس موقع پر جو ترجمہ " ناحق " طور پر وغیرہ الفاظ سے کیا جاتا ہے، وہ حقیقت میں اس کا پورا ترجمہ نہیں بنتا۔ کیونکہ ناحق وغیرہ دراصل ترجمہ ہے " بغیر الحق " کا، جبکہ یہاں ارشاد ہے " بِغَیْر حَقٍّ " تنکیر کے ساتھ، اور عربی بلاغت و مفہوم کے اعتبار سے یہ دونوں تعبیریں برابر نہیں۔ اس لئے ہم نے اس کا ترجمہ " بغیر کسی حق کے " سے کیا ہے، تاکہ قرآنی بلاغت کا بقدر امکان اظہار ہو سکے۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ بہرکیف حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کے قتل کا جرم جو ایک انتہائی سنگین جرم ہے، ظالم اور بدبخت لوگوں نے اس کا ارتکاب کیا اور اس طرح وہ دارین کی ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں گرگئے اور ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ۔ اور قتل انبیاء کے اس انتہائی سنگین اور نہایت ہولناک جرم کا ارتکاب یہود بےبہبود نے کیا۔ اول تو قتل ناحق خود ایک سنگین جرم اور بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر یہ قتل کسی نبی کا ہو تو اس کی سنگینی کے کہنے ہی کیا۔ سو یہود بےبہبود نے اس انتہائی ہولناک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ اسی لئے اس بدبخت قوم پر خدا کا غضب ٹوٹا اور یہ " مغضوب علیہ " قوم قرار پائی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 46 علمائے حقانیین کا قتل انتہائی سنگین جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ : یعنی مصلحین کرام اور علمائے حقانیین کو، جو حق و انصاف کی دعوت دیتے، اور قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ کا نور پھیلاتے ہیں۔ اَلفاظ کا عموم ہر دور کے ایسے علمائے کرام کو شامل ہے، جو حق کی حفاظت و آبیاری، اور خلق خدا کی ہدایت و خیر خواہی کیلئے ہمیشہ سرگرم عمل رہے، اور جنہوں نے اس کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دیں، اور صعوبتیں برداشت کیں اور آج تک کر رہے ہیں۔ اور آج بھی ساری دنیا میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، اور حق کے دشمن ان کو قتل کرکے حق و ہدایت کی روشنی کو گل کرنے کی سعئ مذموم میں پہلے کی طرح آج بھی مصروف ہیں۔ بہرکیف علمائے حق، حق کی خاطر یہ قربانیاں دیتے رہے اور دیتے جارہے ہیں ۔ بنا کروند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن ۔ خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را ۔ فَرَحِمَہُمُ اللُّہُ رَحْمَۃً وَّاسِعَۃً فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃ وَتَقَبَّلَ جُہُوْدَہُمْ وَضَاعَفَ اَجُورَہُمْ وَ الثَّوَابَ ۔ بہرکیف علمائے حقانیین اور مصلحین کرام کا قتل ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔ اسی لیے یہاں اس کو حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ کے قتل کے سنگین اور نہایت ہولناک جرم کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا گیا ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف یہاں پر اس سے مراد، اور اس کا اولین مصداق وہ علمائے مخلصین اور مجددین کرام ہیں جو عام لوگوں سے اٹھتے ہیں اور انہوں نے یہود و نصاری کی تحریفات و بدعات کی اصلاح و تردید کا بیڑا اٹھایا اور انہوں نے از سر نو خدا کے دیئے ہوئے نظام حق و عدل کے مطابق ان کی زندگیوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ تو یہود و نصاری کے بدبختوں نے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو انہوں نے خدا کے نبیوں کے ساتھ کیا۔ سو " اَلَّذِیْنَ یَامُرُوْنَ بالْقِسْط " کا اولین مصداق اگرچہ یہی حضرات علمائے و مصلحین ہیں لیکن الفاظ کا عموم ایسے تمام علمائے مصلحین کو شامل ہے جو ان کے بعد ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ 47 ایک نہایت سنگین جرم اور اس کا نہایت دردناک عذاب۔ والعیاذ باللہ : سو حضرات انبیاء و مصلحین کا قتل نہایت سنگین جرم ہے اور ان کے قاتلوں کیلئے بڑا ہی دردناک عذاب ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ اور ان کے بعد ان کے جانشین یعنی حضرات علماء و صلحاء کے قتل کے جس جرم عظیم کا ارتکاب ان بدبختوں نے کیا، وہ بہت بڑا اور نہایت ہی سنگین و ہولناک جرم ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ ۔ جیسا کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب کس کو ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اس شخص کو ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کیا، یا کسی ایسے شخص کو قتل کیا جو نبی کی تعلیم دیتا اور برائی سے روکتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے قرآن پاک کی یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ نیز ارشاد فرمایا " ابو عبیدہ بنی اسرائیل نے ایک دن میں اور صبح کے ایک وقت میں تینتالیس انبیائے کرام کو قتل کیا۔ اس پر بنی اسرائیل کے ایک سو ستر علماء و صلحاء نے ان بدبختوں کو نصیحت فرمائی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تو انہوں نے اسی شام کو ان سب کو بھی قتل کردیا (ابن جریر، معارف، المراغی وغیرہ ) ۔ سو یہود بےبہود کی قوم ایک بڑی منحوس قوم اور بدبخت جماعت ہے کہ انہوں نے من حیث الجماعت انبیائے کرام اور صلحائے عظام کے قتل کے اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں کو ایک بڑے ہی درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو جو ان کو بہر حال بھگتنا ہوگا اور ہمیشہ کے لئے بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ اس لئے کہ ایسے حضرات روشنی کے مینار اور دنیا کی اصلاح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اور ان کا وجود قدرت کی ایک خاص عنایت ہوتا ہے۔ علیہم الرحمۃ والرضوان -
Top