Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
اور وہ (ایسی عظمت شان والا ہوگا کہ) لوگوں کو کلام کرے گا گہوارے میں بھی، اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، (یکساں طور پر) اور وہ (قرب خاص کے) سزاواروں میں سے ہوگا،
104 حضرت عیسیٰ کے زمانہ کہولت کے کلام کا ذکر و فائدہ ؟ : یعنی یہاں پر " مہد " اور " کہولت " کے دو دوروں میں کلام کرنے کا جو ذکر آیا ہے تو اس میں " مہد " یعنی گود اور گہوارے میں کلام کرنا تو ظاہر ہے ایک معجزہ ہے، جس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے نوازا گیا تھا۔ اس لئے اس کے ذکر کا مقصد و مدعا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر کہولت میں کلام کرنا تو کوئی معجزانہ بات نہیں، اس کے ذکر کا مقصد و مدعا کیا ہے ؟ سو اس میں دراصل دو عظیم الشان مطلب اور فائدے مضمر ہیں۔ ایک یہ کہ مہد و کہل کے یکجا ذکر کرنے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آنجناب کی مہد والی گفتگو بھی اتنی معقول اور ٹھوس ہوگی، جیسا کہ زمانہ ٔ کہولت میں کی جاتی ہے۔ اور حقیقت حال اور امر واقع اس کا شاھد ہے، کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں بھی نہایت عمدہ، معقول اور ٹھوس گفتگو کی تھی۔ ترجمہ کے اندر بین القوسین والی عبارت سے اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور دوسرا مطلب و فائدہ اس میں یہ مضمر ہے کہ " کہلاً " کے اس لفظ سے نزول عیسیٰ کی طرف اشارہ بھی مفہوم ہوتا ہے، کیونکہ جب آپ کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا تھا اس وقت آپ کی عمر مبارک مشہور روایات کے مطابق صرف تینتیس برس تھی، جبکہ کہولت کا زمانہ چالیس سال کے بعد شروع ہوتا ہے، تو اس سے واضح ہوگیا کہ آپ دوبارہ تشریف لائینگے، اور کہولت کی اس عمر کو پہنچ کر کلام فرمائینگے۔ اور روایات کے مطابق نزول کے بعد آپ چوبیس سال قیام تک فرمائیں گے۔ (ابن جریر، قرطبی، روح، اور کبیر، وغیرہ) یہاں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن حکیم کے کس قدر احسانات ہیں دنیا پر۔ اور حضرات انبیائے سابقین، اور خاص کر حضرت عیسیٰ بن مریم پر۔ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ پر کہ ان سب پاکیزہ ہستیوں کی سیرت اور ان کے کردار کو اس کتاب حکیم نے اس درجہ نکھار کر بیان فرمایا، اور ان کی اس قدر براءت و نزاہت ذکر فرمائی ہے، کہ کسی داغ دھبے کا کوئی شائبہ تک ان پاکیزہ ہستیوں کی سیرت و کردار پر باقی نہیں رہنے دیا۔ ورنہ ان کے نام لیواؤں تک نے طرح طرح کے قصے گھڑ کر اور خود ساختہ روایتیں پھیلا کر، ان کی پاکیزہ سیرتوں کو داغدار کرنے کا سامان کیا تھا۔ مثلا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے سلسلہ میں یہود بےبہود نے حضرت مریم صدیقہ پر سنگین بہتان طرازی کی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ۔ کے اس معجزانہ کلام کا انکار کیا، جو انہوں نے اپنی ماں کی گود میں اپنی پوزیشن کی وضاحت، اور اپنی والدہ ماجدہ کی پاکدامنی و براءت کے بارے میں کیا تھا (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ سو ایسے میں قرآن حکیم نے اپنی بےمثال حق گوئی سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْن -
Top