Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ
: وہی
الَّذِيْٓ
: جس
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلَيْكَ
: آپ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب
مِنْهُ
: اس سے (میں)
اٰيٰتٌ
: آیتیں
مُّحْكَمٰتٌ
: محکم (پختہ)
ھُنَّ
: وہ
اُمُّ الْكِتٰبِ
: کتاب کی اصل
وَاُخَرُ
: اور دوسری
مُتَشٰبِهٰتٌ
: متشابہ
فَاَمَّا
: پس جو
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمْ
: ان کے دل
زَيْغٌ
: کجی
فَيَتَّبِعُوْنَ
: سو وہ پیروی کرتے ہیں
مَا تَشَابَهَ
: متشابہات
مِنْهُ
: اس سے
ابْتِغَآءَ
: چاہنا (غرض)
الْفِتْنَةِ
: فساد۔ گمراہی
وَابْتِغَآءَ
: ڈھونڈنا
تَاْوِيْلِهٖ
: اس کا مطلب
وَمَا
: اور نہیں
يَعْلَمُ
: جانتا
تَاْوِيْلَهٗٓ
: اس کا مطلب
اِلَّا
: سوائے
اللّٰهُ
: اللہ
وَالرّٰسِخُوْنَ
: اور مضبوط
فِي الْعِلْمِ
: علم میں
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِهٖ
: اس پر
كُلٌّ
: سب
مِّنْ عِنْدِ
: سے۔ پاس (طرف)
رَبِّنَا
: ہمارا رب
وَمَا
: اور نہیں
يَذَّكَّرُ
: سمجھتے
اِلَّآ
: مگر
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
وہ ہی ہے جس نے آپ پر یہ (عظیم الشان) کتاب اتاری، جس کی کچھ آیتیں محکم ہیں،4 جو کہ اس کتاب کی اصل بنیاد ہیں، جب کہ اس کی کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں5، سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی (اور ٹیڑھ) ہے، وہ اس کی انہی آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں، جو کہ متشابہ ہیں، فتنہ (و فساد) کی تلاش میں، اور ان (سے اپنی مرضی) کا مطلب نکالنے کے لئے حالانکہ ان کا (حقیقی) مطلب کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ (وحدہ لاشریک) کے1، اور جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر (اللہ کی مراد کے مطابق) ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) سبق وہی لوگ لیتے ہیں جو عقل سلیم رکھتے ہیں،
10 " محکم " کا معنیٰ اور اس سے مراد ؟ : سو ایسی آیات کریمات وہ ہوتی ہیں جن کے مفاہیم واضح، اور ان کی مراد متعین ہوتی ہے۔ ور ان کے مفہوم و مراد کو سمجھنے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ " محکم " اِحکام سے ماخوذ ہے۔ جس کے اصل اور لغوی معنی پختگی اور مضبوطی کے ہوتے ہیں۔ سو اس اعتبار سے قرآن حکیم کی سب ہی آیات محکم اور پختہ ہیں، کہ وہ سب ہی اپنے ظاہر و باطن، الفاظ و معانی، تراکیب و مبانی، اور اپنے مطالب و مقاصد، کے اعتبار سے نہایت مضبوط اور محکم ہیں، جن میں کسی طرح کا کوئی خلل اور فتور راہ نہیں پاسکتا۔ سو اس اعتبار سے قرآن حکیم کی سب ہی آیات محکم ہیں۔ چناچہ سورة ھود میں ارشاد فرمایا گیا { کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیَاتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ } (ھود۔ 1) یعنی " یہ ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے جس کی آیتوں کو محکم بنایا گیا پھر ان کی تفصیل کی گئی ایک ایسی ذات اقدس و اعلیٰ کی طرف سے جو کہ نہایت ہی حکمت والی، انتہائی باخبر ہے "۔ اور دوسرے معنی " محکم " کے واضح اور ظاہر کے ہیں۔ یعنی جس کا معنی و مطلب ایسا ظاہر و واضح ہو کہ اس کے سمجھنے میں کوئی دقت و دشواری نہ ہو۔ سو اس اعتبار سے قرآن حکیم کی آیتیں دو قسم پر ہیں۔ ایک وہ جن کے معانی و مطالب ظاہر و واضح ہیں۔ اور دوسری وہ جو ایسی نہیں ہیں۔ سو اسی اعتبار سے یہاں فرمایا گیا کہ قرآن حکیم کی آیات دو قسم پر ہیں۔ " محکم " اور " متشابہ " یعنی انہیں سے کچھ تو وہ آیات کریمات ہیں جن کے معانی و مطالب ظاہر اور واضح ہیں، اور کچھ اس کے برعکس دوسری نوعیت کی ہیں۔ جن کے یا تو سرے سے اصل معنی ہی معلوم نہیں یا ان کے معنی مراد واضح نہیں۔ یہ دونوں قسم کی آیتیں برحق اور منزل من اللہ ہیں اور دونوں ہی اللہ پاک کی عظمت و حکمت کی مظہر و نمونہ ہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 1 1 محکم آیتیں ہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں : کہ ہدایت و رہنمائی کے جس مقصد عظیم کیلئے قرآن حکیم کو نازل فرمایا گیا ہے، اس کا تعلق انہی آیات کریمات سے ہے۔ اور طالب حق کیلئے ایمان اور عمل صالح جو کہ اصل مدار نجات ہے، کے بارے میں کوئی خفاء و تشنگی باقی نہیں رہ جاتی۔ ایمان و اخلاق، عبادات و معاملات، عقائد و اعمال، اور فرائض و واجبات وغیرہ سب کچھ جو کہ ایک انسان کے عمل اور اس کی ہدایت اور فلاح و نجات کیلئے ضروری اور اس کے لئے مطلوب ہے، وہ سب انہی آیات محکمات کے ذریعے بتمام و کمال واضح فرما دیا گیا ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْْنَ ۔ سو ان آیات کریمات کی حیثیت اصل اور " ام الکتاب " کی ہے۔ اور باقی ساری آیات کا مرجع و مرکز یہی " محکمات " ہوتی ہیں۔ ساری بحث کا دارومدار انہی پر ہوتا ہے۔ باقی تمام شاخیں انہی سے پھوٹتی ہیں۔ اگر کوئی نزاع اور خلاف پیدا ہوجائے تو اس کا فیصلہ بھی انہی کی کسوٹی پر پرکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ پھر انہی آیات محکمات کا یہ درجہ و مقام ہے کہ ان کو اصول قرار دے کر ان سے مسائل مستنبط کئے جائیں اور ان مسائل پر اسی طرح اعتماد کیا جائے جس طرح اصولوں پر کیا جاتا ہے۔ سو یہی صحت و سلامتی کی راہ ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ 12 " متشابہ " کا معنیٰ اور اس سے مراد : " محکم " کی طرح متشابہ کی بھی کی دو صورتیں، اور دو قسمیں ہیں، اور اس کے بھی دو معنی و مطلب بنتے ہیں۔ ایک یہ کہ " متشابہ " کے معنی ہوں " تشابہ " اور " مشابہت " والی۔ یعنی باہم ایک جیسی اور آپس میں ملتی جلتی۔ سو اس اعتبار سے قرآن حکیم کی سب ہی آیات " متشابہ " ہیں۔ یعنی وہ اپنی عمدگی و تاثیر، صداقت و حقانیت، اِعجاز و بلاغت، اور کمال و جامعیت وغیرہ صفات حمیدہ اور خصائص و مزایا، اور کلام الہٰی ہونے کے اعتبار سے باہم دیگر متشابہ اور ایک جیسی ہیں۔ ان میں باہم کوئی فرق و اختلاف نہیں۔ سو اسی بناء پر اس پوری کتاب حکیم کو " متشابہ " قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورة زمر میں اس بارے ارشاد فرمایا گیا { اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْث کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ } الاٰیۃ (الزمر۔ 23) یعنی اللہ ہی نے نازل فرمایا ہے یہ سب سے عمدہ کلام ایک ایسی عظیم الشان کتاب کی صورت میں، جس کی آیتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی، اور دہرائی جانے والی ہیں۔ اور دوسرا معنی " متشابہ " کا یہ ہے کہ یہ " تشابہ " اور " اشتباہ " کے معنی میں ہو۔ یعنی ان کے معانی و مطالب سے متعلق اشتباہ پایا جاتا ہو۔ سو اس اعتبار سے قرآنی آیات دو قسم پر ہیں۔ ایک " محکم " اور دوسری " متشابہ " جیسا کہ یہاں ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ سو اس اعتبار سے " متشابہ " سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی مراد واضح نہ ہوں۔ خواہ اس اعتبار سے کہ ان کی دلالت علی المعنی ہی واضح نہ ہو، جیسا کہ حروف مقطعات ہیں کہ ان کی کسی خاص معنی مرادی پر کوئی دلالت ہی واضح نہیں۔ اس لئے کہ " الٓم " یا " الٓرٓ "، " طٰہٰٓ " یا " طٰسٓمّٓ " وغیرہ کے کوئی خاص معنیٰ ان کی دلالت لغوی کے اعتبار سے واضح نہیں۔ اسی لئے ان کے بارے میں راحج قول حضرات اہل علم کا یہی ہے کہ " اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمُرَادِہٖ " کہ " ان کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے " ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یا یہ ہو کہ لغوی معنیٰ تو واضح ہوں مگر معنی مراد واضح نہ ہوں، جیسا کہ { یَدُ اللّٰہٗ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ } اور { بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتَان } اور { وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ } اور { وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّک } وغیرہ آیات کریمہ میں ہے، کہ ان میں وارد شدہ الفاظ " َ یَدٌ "، " نَفْسٌ "، اور " وَجْہٌ " وغیرہ کے لغوی معنی تو معلوم و مفہوم اور واضح ہیں، مگر ان کے وہ معانی و مفاہیم حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کیلئے نہیں لئے جاسکتے جو مشہور و معروف ہیں، کیونکہ ان کے یہ مشہور و معروف معانی و مفاہیم تو مخلوق کیلئے ہیں۔ جبکہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی شان اقدس واعلیٰ اس سے پاک، بالا، اور وراء لوراء ہے۔ کہ وہ خالق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس اس کے لئے صحیح طریقہ اور سلامتی کی راہ یہی ہے کہ حضرت حق کے بارے میں ان الفاظ و کلمات کے معانی و مفاہیم سے متعلق یوں کہا جائے کہ " جیسا کہ اس کی شان اقدس و اعلیٰ کے لائق ہے " ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور حضرات سلف سے بھی یہی منقول ہے۔ اور یہی مخاوف و محاذیر سے محفوظ اور سلامتی کی راہ ہے۔ بہرکیف " متشابہ " کے دو معنیٰ اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ اور یہ دونوں اپنے طور پر اور اپنے اپنے دائرے میں صحیح ہیں، جیسا کہ اوپر تفصیل سے گزرا ۔ والحمد اللہ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور ان دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ 13 " زائغین " کا طریقہ " متشابہات " کے پیچھے پڑنا : سو ایسے لوگ " متشابہ آیات " کے پیچھے لگتے ہیں، تاکہ اس طرح وہ اپنے عقائد ِباطلہ، اور خیالات فاسدہ کی تائید و تصدیق کا مواد جمع کر کے ان نصوص کو خلق خدا کے اغواء واضلال کے مقاصد خبیشہ کیلئے استعمال کرسکیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے ایسے لوگوں سے بچنے اور ان سے ہوشیار رہنے کی تلقین فرمائی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں ام المومنین حضرت عائشہ ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آپ ؓ سے ارشاد فرمایا کہ " عائشہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو کہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں، تو جان لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں فرمایا ہے "۔ پس تم ان سے بچ کر رہنا، (بخاری، کتاب التفسیر، سورة آل عمران) ۔ اسی لئے جیسا کہ مسنددارمی میں مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ ۔ ؓ ۔ نے صبیغ بن علی نامی ایک شخص کی ایسے ہی سوالات کرنے پر سخت پٹائی کی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے سر کو لہولہان کردیا تھا، اور اس کو آپ ؓ نے تب چھوڑا جبکہ اس نے کہا کہ " حضرت بس کیجئے، معاف کیجئے، اب میرے دماغ سے وہ خمار اتر گیا ہے "۔ (تفسیر القاسمی ج ا 99) اسی لئے حضرت ابن عباس ؓ سے جب کوئی شخص اس طرح کے سوالات کرتا تو آپ ؓ اس کو فرماتے کہ تم اس لائق ہو کہ تمہارے ساتھ وہی حشر کیا جائے جو حضرت عمر ؓ نے صبیغ بن علی کے ساتھ کیا تھا۔ ( القاسمی ج 2 ص 38) ۔ بہرکیف " متشابہات " کے پیچھے لگنا " زائغین " کا طریقہ ہے، اور اس طرح ان بدبختوں نے طرح طرح کے ہولناک فتنوں کے دروازے کھولے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ جَلَّ وَعَلَا ۔ مثال کے طور پر قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ کو " کلمۃ اللہ "، " اللہ کا فرمان " قرار دیا گیا ہے۔ اور یہی بات ان کے بارے میں انجیل میں بھی فرمائی گئی۔ یعنی قرآن اور انجیل دونوں میں۔ آنجناب کو اللہ کا فرمان قرار دیا گیا ہے اور اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ چونکہ آپ ﷺ کی ولادت فطرت کے عام قاعدے اور معروف ضابطے کے خلاف باپ کے واسطے کے بغیر محض والدہ ماجدہ سے ہوئی تھی، اس لئے آپ کو " کلمۃ اللہ "، " اللہ کا فرمان " قرار دیا گیا کہ آپ کی ولادت با سعادت محض اللہ تعالیٰ کے کلمہ " کن " سے ہوئی تھی مگر " زائغین " نے اس لفظ کو من مانے معنی پہنا کر کچھ کا کچھ بنادیا۔ یہاں تک کہ اسی بناء پر دین عیسوی کا حلیہ بگاڑ دیا اور اس دین توحید سے بدل کر شرک کا پلندہ اور ایک گورکھ دھندا بنا کر رکھ دیا جو نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 14 " متشابہات " کی مراد اللہ ہی جانتا ہے : یعنی وقف لازم لفظ جلالہ " اللہ " پر ہے۔ اور آگے " وَالرَّاسِخُوْنَ " الخ جملہ مستانفہ ہے۔ اور یہی قول جمہور علماء و مفسرین کا ہے۔ جیسے حضرت ابن عباس ؓ ، ابن عمر ؓ ، ابن مسعود ؓ ، ابی بن کعب ؓ ، عروۃ بن الزبیر ؓ ، ام المومنین حضرت عائشہ ۔ ؓ ۔ حضرت حسن بصری (رح) اور امام مالک (رح) وغیرہ کا، کہ ان سب حضرات کے نزدیک " متشابہات " کا علم صرف حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کو ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور " راسخین فی العلم " اس پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں، کہ یہ سب حق اور سچ ہے، اور ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے۔ سب کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ " محکم آیات " پر چونکہ ہمیں عمل کرنا تھا اس لئے اس کی مراد واضح فرما دی گئی جبکہ " متشابہات " پر ہمارا کوئی عمل موقوف نہیں تھا۔ اس لئے اسکی توضیح و تعیین نہیں فرمائی گئی۔ اور جمہور کا یہی قول حنفیہ کے یہاں بھی معتبر و مختار ہے۔ (روح، مظہری، قرطبی، کبیر، القاسمی، المعارف، جواہر، اور مراغی، وغیرہ) ۔ جبکہ دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ وقف لازم لفظ جلالہ پر نہیں، بلکہ لفظ " علم " پر ہے۔ یعنی " را سخین فی العلم " بھی اس کی تفسیر و تاویل کو جانتے ہیں، مگر یہ قول پہلے قول کے مقابلے میں مرجوح ہے۔ تفصیل مطولات میں انشاء اللہ ۔ مفصل تفسیر لکھنے کا موقع اگر ملا تو اس میں اس بارے میں پوری تفصیلی بحث کی جائیگی ۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ وَالْمُعِیْنُ ۔ بہرکیف کتاب حکیم کی آیات کریمات دو طرح ہیں " محکم " اور " متشابہ "۔ " محکمات " کا تعلق چونکہ اصول و مبادی اور انسان کے عمل سے ہے۔ اس لیے ان کی مراد واضح ہے تاکہ انسان اس کے مطابق اپنے عقیدہ اور عمل کو درست کرے۔ جبکہ " متشابہات " پر اس کا کوئی عمل موقوف نہیں، اس لیے ان کی مراد کو واضح نہیں فرمایا گیا۔ بہرکیف متشابہات کے بارے میں پہلا قول جو کہ عقل و نقل اور فطرت سلیمہ کے مطابق ہے وہ جمہور اہل علم کا ہے، جب کہ دوسرا قول شیعہ اور بعض متکلمین وغیرہ کا ہے۔ (تدبر قرآن وغیرہ) ۔ سو متشابہات کی اصل مراد اللہ ہی جانتا ہے اور اسی کا علم کامل اور محیط ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ - 15 صحیح سبق عقل سلیم رکھنے والے ہی لیتے ہیں : یعنی ایسی عقول جو ہر طرح کے انحراف اور میل کچیل سے پاک صاف اور محفوظ ہیں، اور زیغ و ضلال اور خواہش پرستی و نفس پرستی وغیرہ کا کوئی زنگ ان کو نہ لگا ہو۔ کہ ایسے ہی صاف ستھرے اور خالص و سلیم عقل والے لوگ صحیح سبق لیتے اور نصیحت قبول کرتے ہیں۔ ورنہ جن کی عقلیں کسی طرح کے زیغ و ضلال اور فساد و انحراف کا شکار ہوجاتی ہیں، ان کو نہ راہ حق سوجھتی ہے، اور نہ ہی ان کو آیات و دلائل سے سبق لینے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن پاک ایسے مواقع میں " اُولُوا العُقُوْل " نہیں " اُولُوالالباب " فرماتا ہے۔ اس لئے عام طور پر اردو تراجم میں جو اس کا ترجمہ " عقلمند " وغیرہ جیسے الفاظ سے کیا جاتا ہے وہ اس لفظ کا پورا اور مکمل ترجمہ نہیں بنتا، کیونکہ " عقل " اور " لُبْ " کے درمیان فرق ہے کہ " لُبْ " اصل میں خالص اور سلیم عقل کیلئے موضوع ہے، جبکہ عقل عام ہے۔ ہر طرح کی عقل کو شامل ہے۔ اگرچہ ہویٰ و ہوس، اور زیغ و ضلال کے زنگ نے اس کو کھالیا ہو، اور ظاہر ہے کہ ایسی عقل کا کوئی اعتبار نہیں، کہ وہ ماؤف ہوچکی ہوتی ہے۔ چناچہ ایسے کتنے ہی لوگوں نے طرح طرح کے باطل کو اپنایا ہے، اور انہوں نے جمادات و نباتات، اور حیوانات بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انسانی شرم گاہوں تک کی پوجا کر ڈالی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ ایسے لوگوں کی عقلیں ہویٰ و ہوس کی میل کچیل سے لتھڑ کر مسخ ہوچکی ہوتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ تو پھر ایسی عقلوں کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے ؟ سو صحیح طور پر غور و فکر کرنے اور اشیاء سے صحیح سبق لینے اور صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے اس عقل سلیم کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہر قسم کی میل کچیل سے پاک صاف ہو اور اس پر کوئی زنگ نہ لگا ہو ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم من کل زیغ و ضلال -
Top