Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 77
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَشْتَرُوْنَ : خریدتے (حاصل کرتے) ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا اقرار وَاَيْمَانِهِمْ : اور اپنی قسمیں ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَا : نہیں خَلَاقَ : حصہ لَھُمْ : ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُھُمُ : ان سے کلام کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ يَنْظُرُ : نظر کرے گا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا يُزَكِّيْهِمْ : اور نہ انہیں پاک کرے گا وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
(اور اس کے برعکس) جو لوگ (سمیٹتے اور) اپناتے ہیں اللہ کے عہد، اور اپنی قسموں کے عوض، (دنیا دوں گا) تھوڑا (اور گھٹیا) مول، تو ایسوں کے لئے یقینا نہ آخرت میں کوئی حصہ ہے، اور نہ اللہ ان سے کلام فرمائے گا، اور نہ ہی وہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا قیامت کے روز، اور نہ ہی وہ ان کو پاک فرمائے گا، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب (مقرر) ہے،
159 تقویٰ و پرہیزگاری ذریعہ نجات و سرفرازی : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ محبت رکھتا ہے متقی اور پرہیزگار لوگوں سے۔ سو اللہ تعالیٰ کے محبوب متقی و پرہیزگار لوگ ہی ہیں۔ سو جس نے اپنے عہد کو نبھایا اور تقوی کو اپنایا وہ اللہ کا محبوب بن گیا۔ اور جو اللہ کا محبوب بن گیا تو اس کو اور کیا چاہیئے۔ اور اس سے بڑھ کر کامیاب اور فائز المرام اور کون ہوسکتا ہے ؟ پس ہمیشہ تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت ہی کو اپنانے بڑھانے اور اس کو محفوظ رکھنے کی فکر و کوشش میں رہنا چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو اپنے عہد و پیمان کی ادائیگی و پاسداری اور تقویٰ و پرہیزگاری کا التزام و پابندی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ اس میں انسان جتنا بھی پختہ ہوگا اور جس قدر آگے بڑھے گا اسی قدر راہ حق و ہدایت اور دولت فوز و فلاح سے بہرہ مند و سرفراز ہوگا ۔ وِبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَعَلٰی مَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَھُوَا لْہَادِی اِلٰی سَوَاء السَّبِیْل - 160 اصل چیز نور حق و ہدایت ہی ہے : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اصل چیز نور حق و ہدایت ہی ہے۔ اور حق کے مقابلے میں دنیا ساری بھی ہیچ ہے اور حق فروشی ۔ والعیاذ باللہ ۔ بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ کیونکہ حق فروشی کے مقابلے میں تو دنیا ساری کی دولت بھی ہیچ ہے۔ پھر ان چند ٹکوں کا کہنا ہی کیا جو کوئی قسمت کا مارا حق کے بدلے میں اپنائے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم۔ِکہ حق کی جس نعمت عظمیٰ سے ایسے لوگوں نے اپنے آپ کو محروم کیا، اس کے مقابلے میں دنیا ساری کی سب دولتیں مل کر بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتیں (محاسن التاویل للامام العلامہ القاسمی الشامی (رح) ) ۔ سو اصل دولت حق اور ہدایت کی دولت ہی ہے، جو انسان کو انسان بناتی اور اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور و سرفراز کرتی ہے۔ ورنہ انسان ایک حیوان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ بدترین مخلوق " شَرّْ الْبَرِیَّۃ " بن کر رہ جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حق و ہدایت کی دولت سب سے بڑی دولت ہے ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 161 حق فروشوں کے لیے بڑا ہی دردناک عذاب ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حق فروشوں اور عہد شکنی کرنے والوں کیلئے بڑا دردناک عذاب ہے : سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حق فروشی، عہد شکنی اور خیانت کس قدر سنگین اور ہولناک جرم ہے کہ جو سزا اس کی یہاں بیان ہوئی ہے وہ زنا، چوری، اور قتل وغیرہ جیسے سنگین جرائم میں سے بھی کسی کے بارے میں بیان نہیں ہوئی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ مگر افسوس کہ اس کے باوجود یہ بیماری آج مسلم معاشرے میں بھی پائی جاتی ہے اور زور و شور سے پائی جاتی ہے۔ اور کتنے ہی اچھے اچھے دیندار قسم کے لوگ ہیں جو اس بیماری کے جراثیم سے آلودہ ہیں اور ان کو اس کا احساس ہی نہیں کہ عہد شکنی اور خیانت کے اس جرم کے باعث وہ اپنا کس قدر نقصان کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور " عہد اللہ " کا عموم ہر اس عہد کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے نام پاک کے واسطے سے انسان پر عائد ہوتا ہے جس میں وہ عہد بھی آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں سے عالم ارواح میں لیا تھا اور جس کو عہد الست کہا جاتا ہے۔ اور وہ عہد بھی جو انسان اقرار ایمان کے ذریعے اپنے اوپر عائد کرتا ہے اور خداوند قدوس کی وہ کتاب و شریعت بھی جس کو اس نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے۔ اور ایمان سے مراد وہ عام عہد و پیمان ہیں جن پر عام اجتماعی اور تمدنی زندگی کی اساس و بنیاد قائم ہوتی ہے اور جن سے معاشرتی زندگی اور باہمی معاملات میں اعتماد اور حسن ظن کی فضا قائم ہوتی ہے۔ یہود بےبہبود نے طرح طرح کے حیلوں حوالوں سے ان سے متعلق ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو گویا بالکل فارغ کردیا تھا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top