Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جب کہ چڑھ آئے تھے تم پر وہ لوگ (یعنی تمہارے دشمن) تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے بھی اور جب پتھرا گئی تھیں آنکھیں اور منہ کو آگئے تھے کلیجے اور تم لوگ اللہ (پاک) کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگ گئے تھے
23 غزؤہ اَحزاب کے ہولناک منظر کی تصویر کشی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب چڑھ آئے تم پر وہ لوگ۔ یعنی تمہارے دشمن ۔ تمہارے اوپر سے بھی اور تمہارے نیچے سے بھی "۔ یعنی ہر طرف سے۔ اور اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اوپر سے مراد مدینہ کی مشرقی جانب ہو جدہر سے غطفان وغیرہ حملہ آور ہوئے تھے اور نیچے سے مراد وہ جانب ہو جدھر سے قریش وغیرہ آئے تھے۔ بہرکیف یہ غزؤہ اَحزاب کے ہولناک منظر کی تصویر کشی فرمائی گئی ہے تاکہ اس سے واضح ہوسکے کہ منظر کتنا ہولناک اور کس قدر مہیب اور خوفناک تھا تاکہ ان مہیب اور ہولناک اندھیروں میں خداوند قدوس کی طرف سے ملنے والی اس نصرت و امداد کی عظمت و اہمیت سے پوری طرح واضح ہوسکے جس سے اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو انکے صدق و صفا اور ان کی قوت ایمان و یقین کی بنا پر نوازا تھا کہ مدد کرنا اور نوازنا اسی وحدہ لاشریک کی شان کرم و احسان ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف " فوق " اور " اسفل " دونوں کے ذکر سے مشرقی اور مغربی دونوں سمتوں سے حملے کا ذکر فرما دیا گیا۔ کیونکہ مشرقی سمت بلند تھی اور مغربی نشیب میں۔ اور دشمن اہل ایمان ہر طرف سے چڑھ آئے تھے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 24 صورت حال کی ہولناکی کے طبعی اثر کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور خوف کے مارے تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگ گئے تھے "۔ ایمان والوں کو تو اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر یقین تھا مگر منافق لوگ یہاں تک کہنے لگے تھے کہ محمد نے تو ہم سے قیصر و کسریٰ کے محلات کے وعدے کئے تھے مگر حال یہ ہے کہ آج ہم لوگ قضائے حاجت کے لئے باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان کی دولت کتنی بڑی دولت ہے اور اس کی قوت کس قدر عظیم قوت ہے۔ اور اس سے بندئہ مومن کو مصائب و مشکلات کے ہجوم میں بھی کس قدر امن و سکون نصیب ہوتا ہے۔ جبکہ دولت ایمان سے محروم لوگ ہر وقت تنگی ہی تنگی میں رہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ضعیف الایمان اور روگ منافقت کے روگی لوگوں کے اس خوفناک منظر کو دیکھنے سے اوسان خطا ہوگئے اور خدائے پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی نصرت و امداد کے سب وعدے ان لوگوں کی نظروں میں مشکوک ہوگئے تھے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف یہ حال ضعیف الایمان اور منافق لوگوں کا تھا جبکہ سچے پکے مومن اس وقت بھی مطمئن تھے۔ اس لیے ان کی عزیمت و استقامت اور ان کے سکون و اطمینان کی تعریف آگے صاف اور صریح لفظوں میں فرمائی گئی ہے۔ سو ایمان و یقین کی دولت سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔
Top